اتوار، 17 اپریل، 2022

میں اور میرا تؑصب

میں اعلانیہ طور پر ایک تعصبی ہوں اور مجھے اپنے تعصب پر کوئ شرمندگی نہیں ہے۔ میں نے اپنی زاتی زندگی تک جو چیز بھی دیکھی اس کو تعصب کی عینک لگا کر دیکھا۔ سیدھی سی بات ہے تعصبی ہوں تو تعصب کی عینک ہی لگا کر دیکھوں گا۔ میں نہیں جانتا میں نے یہ تعصب کی عینک کب پہنی لیکن میں یہ جنتا ہوں کہ میں نے پہنی۔ تعصبی ہونے کا ایک نقصان ہے کہ مجھ جیسا تعصبی سیدھی سادھی بات کو بھی تعصب کے پیمانے میں تولتا ہے۔ مجھے اس اقرار میں بھی کوئ شرمندگی نہیں ہے کہ اوائل جواںی میں، میں نے گورمنٹ کامرس کالج فیشن ایبل اور برگروں کے تعلیمی ادارے میں چھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمعیت کا یونٹ کھولا۔ غالباً اس دور میں بھی میں تعصب کی عینک لگائے بیٹھا تھا۔ اس دور میں اندرون کراچی اور بیرون کراچی منعقد ہونے والے مباحثوں میں بولنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تعصب ہی تو تھا، جو اسامہ بن رضی جیسے محترم استاد کے زیر سایہ رہنے والا ایک کٹر جماعتی کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل عام ہر مباحثوں میں اپنی آواز اٹھاتا رہا۔
بحیثیت جماعتی میرا کام تو یہ بنتا تھا کہ میں ایم کیو ایم کے کارکنان کے قتل عام پر یا تو چپ رہتا یا جیسے آج لوگ سراہتے ہیں ویسے ہی اس اقدام کو سراہتا۔
لیکن پھر وہ کیا چیز تھی جس نے اس جماعتی کو ایم کیو ایم کے حق میں بولنے پر مجبور کیا، جبکہ وہ جماعتی ایک ذمہ دار بھی تھا۔
غالباً اس کے پیچھے موجود تعصب کارفرما تھا۔
میں نے کراچی آپریشن کو مہاجر نسل کشی مانا تھا یہ بھی تعصب تھا اور یہ تعصب اسوقت بھی دکھا جب فقط اردو بولنے کے جرم میں غیر مقامی رینجرز چیک پوسٹ کا تین گھنٹے تک نفسیاتی اذیتکا نشانہ بنا۔
اگر میں تعصبی نہ ہوتا تو میں یہ سوچتا کہ یہ اہلکار میری حفاظت کے لئے اسقدر چوکنے ہیں کہ مجھے مشکوک سمجھ کر میرے اہلخانہ اور میرے شہریوں کی حفاظت کی خاطر تین گھنٹے تک ہوچھ گچھ کرتے رہے لیکن میں ایسا سوچ نہیں سکا کیونکہ میں بہرحال ایک تعصبی ہوں۔ میں نے ہڑھا کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میرے قبیلے پر ملک دشمنی کے الزامات دھر دئے، میں نے اس وقت بھی ان پر یقین نہیں کیا کیوںکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں کہا گیا کہ جناح پور کے نقشے برآمد کر لئے گئے، کہا گیا کہ ملک دشمن لٹریچر برامد کر لیا گیا، میں نے اخباروں میں پڑھا، یقین کرنے کو دل نہیں کیا، اصولاً تو یقین کر لینا چاہئے تھا لیکن نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے جن پولیس مقابلوں کی تصاویر سامنے آئیں ان میں ہلاک ہونے والے افراد کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں۔
بتاؤ بھلا کوئ زیر حراست ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے طوق پہنے کیسے پولیس سے مقابلہ کر سکتا کے۔
قانون نافز کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں تھا اس لئے نقشوں اور لٹریچر کی برآمدگی مشکوک ٹہری۔
یا ممکن ہے کہ میرے تعصب نے ان کو مشکوک بنا دیا کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا، تعلیمی زندگی ختم ہوئ اور غم روزگار کا ناگ پھن اٹھائے کھڑا ہو گیا، غلطی سے نوکری بھی ملی ایک صحافتی ادارے میں، یہاں ہڑھنے پڑھانے کے مواقع اور کھل کر سامنے آئے۔
مشاہدہ تھوڑا سا اور قوی ہوا،
پڑھا کہ جناب!
مملکت پاکستاں کی تاریخ بڑے بڑے پردوں کے پیچھے چھپی ہے، یعنی اس ریاست میں ظالم طبقہ ہے جس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وسائل دوسروں کے ہوں قبضہ صرف ان کا۔
بنگالی بھائیوں کو دیکھیں جن کو آج ریاست میں غدارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیا وجہ تھی 16 دسمبر 1971 کا سانحہ پیش آیا، غالباً وہ کماتے زیادہ تھے اور اپنی کمائ پر اپنا حق بھی مانگتے تھے تو غدار تو ٹہرنے ہی تھے۔
میرے لئے وہ غدار نہیں، انہوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی بلکل اسی طرح جیسے قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور وہاں وہ جیت گئے۔ ہاں آپ کے لئے وہ غدار ہیں کیونکہ آپ ہیں محب وطن پاکستانی اور میں بہرحال ایک تعصبی، میں نے بلوچوں کی جدوجہد کو دیکھا تو میں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا معدنیات سے بھرپور اس زمین پر جنگ ہے کس کی اور کس لئے، مجھے پیچھے پھر وہی ظالم طبقہ دکھا جو وسائل پر قبضوں کی جنگ لڑ رہا ہے تو مجھے بلوچ بھائیوں سے ہمدردی محسوس ہوئ، آپ کے لئے وہ غدار ہونگے میرے لئے نہیں۔
کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں، پھر وہ وقت آیا جب جناح پور کے الزام لگانے والے خود ٹیلی ویژن اسکرین پر آئے اور انہوں نے آکر قبول کیا کہ ان الزامات میں کوئ صداقت نہیں تھی۔
میرے تعصبی زہن میں سوال ابھرا، جنہوں نے پندرہ سال سے زائد میرے قبیلے کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رکھے تھے کیا ان کے خلاف کوئ کاروائ نہیں ہونی چاہئے لیکن سوال سوال ہی رہا،کیو کہ بہرحال ایک تعصبی زہن کی پیداوار تھا آج بھی ہماری حب الوطنی پر ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سوال پہ سوال اٹھا رہا ہے ریاست میں ریاست کے محب وطن ہم سےسوال کرتے ہیں تم مہاجر کیسے، واپس کیوں نہیں چلے جاتے، ہم گندم اگا کر تم پر احسان کرتے ہیں دو ڈنڈے پڑتے ہی تمھارے لوگ تم سے الگ ہو جاتے ہیں۔
تمھارا لیڈرباہر کیوں بیٹھا ہے؟ تم لوگ پاکستان کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
یہ باتیں مشاہدے پر نہیں گفتگو پر مبنی ہیں جو مجھ سے پنجاب میں رہنے والے انتہائ پڑھے لکھے نوجوانوں نے کیں۔
وہ مضحکہ اڑاتے ہوئے بھی محب الوطن تھے وہ میری نسلوں پر بات کرتے بھی محب الوطن تھے۔
میں سہتے ہوئے بھی متعصب تھا۔
ارے بھائ! جواب تو سن لو سوال اٹھانا آسان ہے اور بغیرپڑھے سوال اٹھانا تو انتہائ آسان ہے۔
تم نے مجھے سے سوال کیا کہ میں مہاجر کیسے؟ اسکا جواب آئینی حوالوں بارہا دے چکا ہوں۔ پنجاب تو برصغیر کی تقسیم کے ساتھ تقسیم ہو گیا تھا۔
اگر میں تم سے یہ کیوں کہ تم خود کوأدھا پنجابی کیوں نہیں کہتے؟
اردو زبان، رسم و رواج اور ثقافت کے ملاپ کا نام ۔
فرما نے لگے کہ بھئ پنجابی بہرحال ایک قوم ہے جو کہ صوبہ پنجاب میں رہتی ہے، آپ سندھ میں رہتے ہو تو آپ سندھی کہلاو۔
میں ٹہرا تعصبی میں نے سوال کر دیا کہ کراچی میں رہنے تمام پنجابی سندھی کہلواتے ہیں خودکو؟
جواب ملا کہ چونکہ پیچھے سے ان کا تعلق پنجاب سے ہے اس لئے وہ پنجابی کہلائیں گے۔
میرے تعصب نے ایک چٹکلا اور دیا کہ پیچھے سے تو پنجاب بھی سندھ کا حصہ تھا تو اب آپ بتائیے کہ لفظ پنجابی کیوں؟ کہنے لگے کہ کچھ اور نہیں یہ آپ کا تعصب ہے جو آپ سے یہ باتیں کروا رہا ہے رہی بات گندم اگانے کی تو بھیا گندم اگانا بہرحال آپ کی محنت ہے لیکن آپکےپاس گندم بیچنے کے لئے مارکیٹ موجود ہے تو آپ کے گندم اگا رہے ہیں نا۔
کتنا ہی عجب ہو کہ اگر ہم آپکی اگائ ہوئ گندم خریدنے سے انکاری ہو جائیں اور اپنی ضرورت کے لئے گندم باہرسے برآمد کرنے لگیں پھر آپ اس گندم میں دفن ہونا پسند کریں گے یا افغانستان بیچنا پسند کریں گے؟
میرے ان جملوں نے غالباً میرے اس تعصب کی قلعی کھول دی۔
اور محفل درہم برہم ہو گئ۔
میں ان پنجابی نوجوانوں کو رخصت ہوتے دیکھتا رہا اور میری سوچ مجھ سے ایک ہی سوال کرتی رہی، کیوں؟ آخر کیوں تم اتنے تعصبی ہو؟ یہ عصبیت تمھارے اندر کس نے بھری ہے؟ تمھیں اس ریاست نے کیا نہیں دیا؟
میں نے اپنی سوچ میں غلطاں نو دسمبر کو عزیزاباد کارخ کر گیا اور عزیزاباد سے ہوتا ہوا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ انسانی حقوق کےچیمپٕن، انسانی حقوق کے علمبردار، انسانی حقوق کے مشعل لے کر دوڑ تو رہے ہیں لیکن ان کے روٹ میں عزیزآباد نہیں آتا تو میں نے اپنی سوچ سے مخاطب ہو کر کہا ابے او ایم سی! بی سی، سی سی اس تمام گفتگو کے بعد بھی اگر میرا وجود سلامت ہے تو اس کی سلامتی ضامن میرا یہی تعصب ہے۔ اب تو کوئ بھی رشتہ پیش کر مجھے قبول نہیں ہے کیونکہ میں ایک تعصبی ہوں۔ اگر تعصبی نہیں ہوتا تو مرچکا ہوتا۔
x

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو کھائے جا رہا ہے۔


اگر آپ نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم

 Venom

دیکھی ہے تو اس میں جو سنگم دکھایا گیا ہے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق کو انسانوں کے ساتھ ملانے کا تجربہ ہے دونوں جانداروں کے سنگم لیبارٹری میں وقوع پزیر ہو جاتے ہیں تو سائنس دانوں کو پتہ لگتا ہے کہ سیارے سے آئ ہوئ مخلوق اندر ہی اندر اپنے سبجیکٹ کو کھا رہی ہے۔ جگر، دل، گردے تمام اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دیکھنے والوں کے لئے یہ سائنس فکشن لگتی ہے لیکن, چلیں نظریہ تبدیل کر کے دیکھتے ہیں۔ ہم انسانوں کے ساتھ ایک ہمزاد بھی جڑا ہوتا ہے جو ایسے ہی اندر ہی اندر ہمیں کھاتا رہتا ہے۔

پراسیس انٹرنل ہوتا ہے لیکن اس انٹرنل پراسیس کی شروعات عموماً کسی ایکسٹرنل سورس یا بیرونی طاقت کی ہلہ شیری کی محتاج ہوتی ہے۔

بیرون طاقتیں لاکھوں سینکڑوں، ہزاروں، چند ایک عوامل یا عامل پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن اتنی پر اثر ہوتی ہے کہ ہمارے اندر وینم ہمارے وجود میں رچ جاتا ہے

آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے وہ ہمارے جسم کے مختلف اعضاء کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔
عموماً یہ عمل انتہائ سست روی کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور بتدریج رفتار پکڑنا شروع کر دیتا ہے۔

غور کریں امراض قلب, جگر، گردے، پھیپھڑے، بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن یہ سب کیا ہیں؟یہ سب وینم کی کارفرمائ ہے جناب۔

بعض صورتوں میں جو خصوصی صورتحال کہلاتی ہے۔

Venom

کی رفتار ابتدا سے ہی تیز ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ، اس وینم سے لڑنے کا کوئ توڑ موجود ہے؟
سوال یہ ہے کہ، کوئ ایسا بٹن بھی موجود ہے جو بیرونی طاقت کو اندرونی طاقت پر حاوی نہ آنے دے؟

سوال کے جواب کو کھوجا تو تصوّف کی بلندیوں سے طب کی پستیوں تک حل بہت پیش کئے جاتے ہیں
انسانی طبیعت کی موافقت کس حد تک ضروری ہوتی ہے اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔

شیطنیت کے پیروکاروں کو ورد پر لگانے سے شیطنیت دور نہیں ہوتی۔ 

ڈرگ ایڈکٹ کو مزید ڈرگز دینے سے فرق نہیں پڑتا۔

دنیا نے ریکی سے لے کر ہپنوسس تک،نیورولنگوسٹک پروگرامنگ سے لے کر ڈی این اے کی ہیلنگ تک نجانے کون کون سے فلسفے متعارف کروائے ہیں لیکن وینم دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو کھائے جا رہا ہے۔
 

اندرونی قوتوں کو استعمال کرنے پر کام کیا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی۔ اگر آپ کسی پارک میں ہیں تو زرا ٹریک پر واک  کرتے لوگوں کے چہروں ہر نظر تو دوڑائیں، اگر آپ کسی بازار میں ہیں تو زرا مجمعے پر نظر دوڑائیں اور اگر آپ کہیں نہیں ہیں تو آئنے کے روبرو ہی ہو جائیں۔ چہروں پر حیرت، اضطراب، سراسیمگی ، جھنجھلاہٹ, غصہ، ہر جگہ دیکھنے کو ملے گا وجہ وہی۔ وینم کو کنٹرول کرنے کے لئے اندرونی طاقتوں کو استعمال کرنے کے ہزارگن ایجاد کر لئے ہیں۔

مگر بیرونی طاقتوں کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔

نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اندرونی طاقت سے بیرونی طاقتوں کو شکست دی جا سکتی ہے، مگر میاں! وہ زمانے لد  جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ سرمایا دارانہ جال میں جکڑے نظام میں اگر کسی فرد کا اندرونی حقیقی اضطراب جانچنا ہے تو بھیڑ میں بچھڑے بچے کا تصور کر لیں، تمام کیفیات جو اس وقت اس بچے ہر طاری ہوتی ہیں ان تمام کیفیات سے خود کو آشنا پائیں گے۔

وینم کو جکڑنے کے لئے وینم کو پابند کرنے کے لئے سائنسی ایجادات نہیں بلکہ  معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے ورنہ یہ وینم کب ہماری شخصیت پر حاوی ہو کر وہ خوفناک روپ دھارے گا جس سے خود کو بھی خوف آئے کوئ نہیں کہہ سکتا۔

شاید میں اول بک رہا ہوں یا فول بک رہا ہوں، اوٹ پٹانگ لکھ رہا ہوں لیکن کیا کروں دوستوں یہ میں نہیں لکھ رہا میرے اندر کا وینم بار بار آکر اس تحریر کا رخ بدلنے پر مجبور کر رہا ہے۔

میں بھی وینم کا شکار ہوں۔ مجھے بیرونی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے قصے کہانیوں کی نہں۔


بدھ، 12 اپریل، 2017

خود کلامی، کامیابی

 کامیابی ہے کیا؟
کامیابی کہتے کسے ہیں؟
کامیابی ہوتی کیا ہے؟
 یہ سوال ناگ کی طرح پھن اٹھائے میرے سامنے جھومتے رہتے ہیں اور۔۔۔۔ میں اس نہ ٹہرنے والے جھومتے پھن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینا چاہتا ہوں وہ جواب جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ جواب جو مجھے مطمئین کر سکتا ہے چونکہ ان سوالوں کو میرے صرف جواب چاہئیں ان جوابوں کا صحیح اور غلط ہونے کا تعلق میری عقل میرے علم میرے تجزیئے اور میرے مشاہدات سے جڑا ہے۔ میں نے کہا،
 ابے او پھن!
 سن!
 کامیابی  ک ا م ی ا ب ی سات حروف کا مجموعہ ہے
میں چاہوں تو ان حروف کے اوزان کو جمع کر کے ایک مرکب تیرے منہ پر مار دوں لیکن میں اس سے مطمئن نہیں ہونگا اس لئے میں اس سات حرفی مجموعے کو کچھ درجات میں بانٹ دیتا ہوں
 خیال رہے بانٹ رہا ہوں تقسیم نہیں کر رہا۔                      

پہلا درجہ جو میرے سامنے آتا ہے اس کا تعلق زہنی سکون سے ہے اب تو پوچھے گا کہ ذہنی سکون کا مطلب کیا ہے؟
لیکن تو کیوں پوچھے گا مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں ۔
میرے نزدیک ذہنی سکون کا سادہ اور آسان سا مطلب ہے کہ ذہن ہر قسم کے خوف سے، غصے سے اور شرمندگی سے آزاد ہو۔
یہ احساسات آپکے ذہن کو اس قابل بناتے ہیں کہ آپ ذہنی آزادی حاصل کرسکیں
خوف ہے تو ذہن قید میں ہے بے سکون ہے
غصہ ہے تو ذہن قید میں ہے بے سکون ہے
 اور اگر اپنے کئے گئے کسی عمل پر شرمندگی ہے تو ذہن قید میں ہے بےسکون ہے۔

 خوف کس بات کا؟
 آنے والے نامعلوم کا؟
 ارے میاں! جب آنے والے کی سمت نہیں پتہ تو خوف کاہے؟
جب آنے والے کی سمت نہیں پتہ تو دھڑکا کاہے؟
 اور جب آنے والے نامعلوم کا نقصان نہیں معلوم تو پھر یہ حساب کتاب کاہے؟

 میرا وجدان مجھ سے کہتا ہے کہ کچھ خوف ماضی سے بھی تعلق رکھتے ہیں ماضی والے قضیے کو بھی چھیڑیں گے لیکن غصے کے بعد چھیڑیں گے بس ایک جملہ اپنے ہی منہ پر مارنے کی جسارت کرتا ہوں "جو گزر گیا اگر اس کے گزرنے کے باوجود نظام تنفس قائم ہے تو بھائی گزرنے والے نے تجھے نقصان کیا دیا؟"
 اس سے خوف کیسا؟
وہ جتنا بھی بڑا جتنا بھی طویل جتنا بھی تھکا دینے والا سلسلہ ہو مرحلہ ہو لمحہ یو وہ گزرنے کے باوجود گر ذہن کام کر رہا ہے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دوبارہ پلٹ کے بھی آتا ہے تو مجھ میں اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے تو پھر خوف کیسا؟

غصہ کیا ہوتا ہے؟
ایک جزباتی عمل، کچھ جزباتی ساعتیں؟ ان کو طاری کیا تو کیا کیا؟
وقتی لمحات میں جی کر کیا کرنا ہے
مانتا ہوں غلط پہ غصہ آنا نارمل ہے لیکن اس غصے میں زندہ رہنا قطعی نارمل نہیں اس لئے پائین غصے گنجائش تو آپکی بھی نہیں بنتی                      

 اب آتے ہیں شرمندگی کی جانب یہ شرمندگی کا منہ زور اتھرا گھوڑا  سرپٹ سرپٹ سرپٹ دوڑ رہا ہے اس کی لگام کدھر ہے؟ پھڑ لی!
 کس بات پہ شرمندگی گزرے کل پہ یا گزرے لمحے ہر؟
 اگر غلط کیا بھی تھا تو معافی و استغفار کی گنجائش ہے تو کوئی شرمندگی کیوں پالے؟
 چل میرے گھوڑے تو بھی ریس ہوجا!

غصہ گیا خوف گیا شرمندگی گئ کامیابی کا پہلا مرحلہ طے ہوا۔

کیوں جی ناگ جی؟ مزہ آ رہا ہے؟
 تمھیں کیوں آئے گا؟ مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں۔

 دوسرے مرحلے کو لاؤں؟
 اجازت ہے؟
تم سے اجازت کیوں مانگ رہا ہوں مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں۔

دوسرے مرحلے پر جسمانی صحت کو جگہ دیتا ہوں۔ ذہنی سکون مل گیا اب جسم کو بھی چست و توانا ہونا چاہئے کیونکہ جسم اگر چست و توانا نہیں ہوگا تو زندگی سے لطف اندوز ہونا کیسے ممکن ہے؟
چلو میاں ڈنڈ پیلو قدرت کی عطا کردہ مزے دار غذاؤوں سے لطف اندوز ہو۔

 تیسرے مرحلے میں میرا کہنا یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی عمدہ مقاصد و خیالات موجود ہوں۔
 کیا آپ بغیر واضح خیال کے کسی مقصد کا تعین کر سکتے ہیں؟
میرے خیال میں میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اور آپ کامیاب ہو سکیں، مقصدیت ضروری ہے چھوٹی یا بڑی بحث یہ نہیں ہے مقصدیت ضروری ہے آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں؟ اور آپکے خیال میں آپکے اندر وہ قابلیت موجود ہے جو آپکو آپ کے مقصد کی سمت میں دھکیل سکیں تو آپ کو کامیاب ہوتے ہوئے کون روک سکتا ہے؟
 واضح مقصد اور واضح خیالات کے بغیر کامیابی صرف ایک خواب ہو سکتی ہے تعبیر نہیں۔

 چوتھا مرحلہ سن! قابلیت
۔قابلیت ہے چوتھا مرحلہ
اگر مقصد کو پانے کے قابل نہیں ہو تو مقصد کو پانے کے قابل بنو۔
 قابلیت کسی کے باپ کی میراث نہیں قابلیت پر تیرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا قابلیت کے در کھولتے چلے جاو کہیں علم کی ضرورت پڑے علم لو کہیں ہنر کی ضرورت پڑے ہنر لو کہیں صبر کی ضرورت پڑے صبر لو کہیں قدر کی ضرورت پڑے قدر کرو، کیونکہ قابلیت اس زینے کا نام ہے جس پر خیال و مقصد کے گھوڑے پر سوار ہو کر کامیابی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
 ہاں!!!
 گھوڑے پر بیٹھنے کے لئے جسمانی صحتمند ہونا ضروری ہے خیالات کی دھندلاہٹ پر قابو پانے کے لئےذہنی آسودگی ضروری ہے۔

 یوں میں یہ چار مرحلے سمیٹ کر سوالوں کے اے ناگ کامیابی کی چھوٹی تعریف تیرے منہ پر مارتا ہوں اب زرا پھن کو نیچے کر لے کیونکہ میں اس پوری تحریر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے خود پر یقین ہے اور اگر مجھے خود پر یقین ہے تو تیری پھنکاریں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں میں خود کو خوف غصے اور شرمندگی سے آزاد محسوس کرتا ہوں میرا ذہن قید میں نہیں رہا۔

 تو اے سوالوں کے ھجوم تیرا یہ باہر نکلتا پھن میرے لئے فن تو ہو سکتا ہے میری کامیابی کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔


چل کٹ لے اور سن جاتے جاتے ایک تحفہ تو لیتے جا ایک کسی ہوئی پپی اور ایک منا بھائی والی جھپی۔

اتوار، 27 نومبر، 2016

جاگیردارانہ سوچ اور ہم

سنتے آئے ہیں کہ جب سقراط زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا "اے استاد! بتا ہم تیری تجہیز و تکفین کن رسموں کے مطابق ادا کریں؟" "میری تجہیز و تکفین؟ " سقراط ہنسا اور پھر سنجیدہ ہو کر کہنے لگا، "کریٹو! میں نے تمام لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ الفاظ کو انکے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو، لگتا ہے تمھیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے یاد رکھو الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔"


بدقسمتی سے ہماری زبان میں کچھ الفاظ اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہونے کے بجائے غلط معنوں میں استعمال کئے جاتے ہیں جیسے لفظ "کمین" کو ہی لے لیجئے کمین ہمارے معاشرے میں گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حقارت اور زلالت کا استعارہ یہ لفظ بعض اوقات گالی کی صورت بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ کمینہ کمینگی جیسے الفاظ کسی انسان کی خصلت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ لفظ کمین کا ماخز کمی ہے جس کا مطلب محنت کرنے والا ہوتا ہے۔ اب اس کو جاگیردارانہ سوچ کے اثرات کہئے یا سرمایہ دارانہ توسیع پسندی کا ہتھیار، ہم نے محنت کرنے والے کو محنت نہ کرنے والوں سے ممتاز کرنے کے بجائے اس کو حقیر و ادنی بنا دیا۔



الفاظ کے غلط استعمال کے گناہ میں ہم نے خود کو خوساختہ پیمانوں مقید کر لیا اور گناہ در گناہ در گناہ کے مستقل مرتکب ہوئے جا رہے ہیں۔
ہماری زبان میں لفظ "شریف" کا استعمال کردار کی ایک خوبی اور وصف ہوتا ہے یعنی جب کہا جائے کہ فلاں شخص شریف ہے تو مطلب یوں نکلتا ہے کہ اس شخص کا کردار انتہائ نیک اور پاکباز ہے لیکن اگر اس لفظ کے ماخز کو دیکھا جائے تو پتہ چلے کہ لفظ شریف شرف سے نکلا ہے جس کی جمع اشراف ہوا کرتی ہے۔ یہ لفظ عموما امراء، والیوں اور شہزادوں کے لئے استعمال ہوتا تھا اور فی زمانہ شریف اور اشراف وہ لوگ ہوئے جو امیر دولت مند یا صاحب اقتدار ہوئے۔
تو طے یہ پایا کہ شرافت وہ خوبی اور وصف ہے جس کے حامل معاشرے کا حکمران طبقہ یا جاگیردار ٹہرے اور آگے چلتے ہیں۔ لفظ آتا ہے "معزز" جس کا ماخز ہے عز جس کے معنی طاقت و قوت ہیں یہ لفظ بھی معاشرے میں با اثر اور صاحب اقتدار طبقے کے ایک وصف کو ظاہر کرتا ہے یعنی شریف و معزز وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار و قوت ہوں جبکہ کمی اور کمین وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار اور صاحب قوت افراد کی یا طبقے کی قوت و قتدار میں اضافے کے لئے دن رات اپنا خون پسینہ ایک کریں۔


ستم بالائے ستم دیکھئے کہ معاشرے میں محنت کرنے والے افراد کو وفاداری، اطاعت گزاری، جانثاری اور ایثار کی قدروں سے بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر آقا کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری میں کوئ کمی آ گئ تو وہ نمک حرامی تصور کی جائے گی اور اگر آقا کی قوت و اختیار میں اضافے کے لئے جانثاری کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ نمک حلالی
تصور کی جائے گی۔


کیا آپ کو نہیں لگتا کہ معاشرتی نظام میں مساوات کی دھجیاں اڑانے میں ان الفاظ کے استعمال نے کلیدی کردار ادا کیا ہے؟


کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آقا، مالک، غلام جیسے الفاظ صرف اور صرف استحصال کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں اگر ہم ان الفاظ کے غلط استعمال جھونجھل سے خود کو آزاد کرا لیں تو ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کافی حد تک دور ہو سکتی ہے۔

سقراط نے صحیح کہا کہ الفاظ کا غلط استعمال گناہ ہے اور ہم اس گناہ عظیم میں مبتلا ہیں۔


ہم میں اکثریت نےذہنی طور پر ناصرف اس طبقاتی تقسیم کو قبول کیا ہوا ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس اقلیتی طبقے کا رکن بن جائے اور یہی اس کی زندگی کی معراج ہوتی ہے۔


عام سے خاص تک، ادنی سے اعلی تک، اسفل سے افضل تک، کمتر سے برتر تک، رزیل سے شریف تک، حقیر سے
معزز تک، غریب سے امیر تک اور مجہول سے خاندانی تک پہنچنا ہماری زندگی کی طبقاتی جدو جہد ہمارا مقصد حیات بن
جاتا ہے۔

کہیں پڑھا تھا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ

میں ابتدا میں روئ دھنے والا تھاپھر شیخ بن گیا
اگر اناج سستا ہو گیا تو میں اس سال سید بن جاونگا۔

ذات پات، نسل، خاندان ،شریف خون اور خون کی پاکیزگی جیسے الفاظ کو فروغ دینے میں ہمارے ادب کا بھی بہت اہم کردار ہے



میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کب تک اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟ ہم۔کیونکر اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟


میں اکثر سوچتا ہوں اور سوچتا ہی رہ جاتا ہوں

اتوار، 22 مئی، 2016

یہ جمود زندگی- یہ بقا کے مرحلے

ایک عرصے سے سوچ منجمد اور قلم ساکت ہے، غم روزگار نے کچھ ایسا فکری جمود طاری کردیا کہ جیسے فکر کے تمام سوتے خشک ہو گئے ہوں، میں خود پر غور کرتا ہوں تو جھنجھلا جاتا ہوں کہ یہ فکری بانجھ پن کیونکر وجود میں آیا۔ ذہن کے الجھاو کو دور کرنے کے واسطے آج قلم کی پوری طاقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس گھمبیر
صورت حل کا کوئی حل نکال سکوں ورنہ میرا معنوی وجود اختتام کے قریب نظر آرہا ہے۔

مادیت کے الجھاو نے روح کو سن کر دیا ہے، آج قلم کو زنگ آلود ہوئے مدت گزر گئی، قلم کو زندگی آلود کرنے کے 
واسطے آج اسے دوبارہ نئی و تازہ قوت دینی پڑے گی، گرد و پیش کو دوبارہ محسوس کرکے ان احساسات کو اتنی حدت فراہم کرنی پڑے گی کہ روح پر موجود تمام برف پگھل جائے ، اور زندگی کی یخ بستگتی میں کچھ تو حرارت پیدا ہو ورنہ اس جینے کے ہاتھوں ہم تو مر چلے۔ انسان کے احساسات کی کانات گر اک بار اس سے چھن جائے تو وہ ایسا جمود یافتہ بت بن جاتا ہے جسے گر و پیش کی کوئی خبر نہیں رہتی، کون ، کہاں، کس حال میں ہے اسے فرق نہیں پڑتا، وہ خود کہاں، کس حال میں ہے اسے تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، وہ بے حس و حرکت ہوش و خرد سے انجان رہنے لگتا ہے، یہ کیفیت زندگی کی نہیں موت کی کیفیت ہوتی ہے، بقا نہیں فنا کی، ہستی کی نہیں عدم کی کیفیت ہوتی ہے اس واسطے زندہ انسان کو اسے قبولنے میں ہمیشہ تردد ہوتا ہے وہ کسی لمحے چونک پڑتا ہے، دھیرے دھیرے مشاہدہ شروع کر دیتا ہے۔ یہ مشاہدہ احساسات میں تحرک کا باعث بنتا ہے ، تحرک زندگی کی گرمی کو جنم دیتا ہے اور جمود کا بت توڑ دیتا ہے۔
آج ایسا لگتا ہے جیسے میرے جمود کی یخ بستہ چٹانیں بھی پگھل رہی ہیں، سرکش ہوائیں طوفان کی آمد کا پتا دے رہی ہیں، زندگی کا تعطل دور ہونے کو ہے، ہاں میں سوچ رہا ہوں، ہاں میرا قلم لکھ رہا ہے، ہاں زندگی برف کی سلوں سے گرم پانیوں کی جانب سرکنے لگی ہے، ہاں میں بے ربطگی سے جانب ربط چلنے کو ہوں۔

لکھنے والا جب معاشرے کی گھٹن آلود فضا میں جمود کا شکار ہوتا ہے تو دنیا اندھیر ہوجاتی ہے، ایسا اندھیرا کہ جس کے بھیانک گوشوں میں انسان سسکتا نظر آئے اور انسانیت بے حال، آج ایسا ہی کوئی پر آشوب دور ہے، جہاں شر و فتن اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ لکھاریوں کو معتوب، حق پرستوں کو مجزوب، اور فکری کاوشوں کو رقص ابلیس سے زیر کرنے پر تلا ہے۔

آج آدمیت منہ چھپائے شرم و حیا کا ماتم کر رہی ہے تو انسان خوب و بد، خیر و شر اور عدل و ظلم کے دوراہے پر ششدر
 کھڑا ہے کہ جائے تو جائے کہاں؟ مستقبل بے یقینی کے ایک دیو کی صورت اسے خوفزدہ و ہراساں کر رہا ہے، آج انسان کو ایسے حق شناس کی تلاش ہے جو زبان، قلم اور تلوار سے حق پھیلائے، صداقت کا بول بالا کردے اور باطل کی گھمبیر و سیاۃ منحوس گھٹایں دور کر کے آفتاب صدق کا جلوہ دکھا دے، کوی رقص ابلیس نہ رہے باقی ، انسان سکھ چین کا سانس لیتے، ارتقاء کے سفر کو جاری رکھتے منزل کمال کی جانب بڑھے، کہ وجود بشر کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ کمال کے اس نقطے کی جانب بڑھے جو اسکے خالق نے اسکے لئے معین کیا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ لباس عظمت وہ کیسے پہن سکتا ہے؟ کہاں سے لائے وہ وسائل جو اسکے لئے وہ لباس مہیا کریں؟ کب ایسے ممکن ہوگا؟ رقص ابلیس کب ختم ہوگا؟ آفتاب صدق کب طلوع ہوگا کہ آج وہ جو ظلم و استبداد کی آہنی سلاخوں کے پیچھے اس کے منتظر ہیں عالمی استکبار کے روز افزوں ظلم سے نجات پا جائیں؟
ہاں وہ صبح آرہی ہے، اسکی نسیم دلپزیر اپنی مترنم موسیقی سے نوید آمد سحرنو دے چکی ہے،وہ جو پندرہ شعبان المعظم کے دن جلوہ فگن ہوا ہولے ہولے، دھیرے دھیرے تمام آفاق کو اپنی آمد کی خبر سنا رہا ہے، قلم کا سکوت و جمود شاید اسی لئے ٹوٹا ہے کہ اب سکوت مرگ سے نجات کا وقت آچکا ہے اور حیات نو کی امید مل چکی ہے، آج بشریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسرور ہو کیونکہ یہ عید حیات نو ہے، ایک نئے عہد کا آغاز ہے تاریخ انسانی کے ہر دور میں بشریت نے اسکا انتظار کیا ہے، انتظار یوں تو بدتر از مرگ ہے، لیکن انسانیت کا یہ کمال انتظار ہے جو عبادت کا درجہ پاگیا۔ اسی لئے آج انتظار گاہ میں تھکی ماندہ انسانیت دیدہ دل فرش راہ کئے بیٹھی ہے۔

پندرہ شعبان المعظم انقلاب مہدی عجل اللہ فرجہ کے سلسلے میں ایک دعوت فکر ہے، یہ انسانی فکر و عمل سے جمود و
 تعطل کے خاتمے کا دن ہے جب عقل انسانی کمال کے نقطے پر پہنچ جائے گی اور انسانیت کمال حقیقی کوپا لے گی۔
سنو سرد راتوں کی تایکیوں میں چھپ چھپ رونے والوں
مصاب و آلام کی چکیوں میں پسنے والوں
ظلم و استبداد کا شکار ہونے والوں
دن کی روشنی میں استکبار کے منحوس سائے کے سیاہ اندھیروں میں سسکنے والوں

آج اپنی مظلومیت کے خاتمے کی نوید سن لو کہ آج کی نسیم صبح تمھارے درد کے مداوا کا پیغام لائی ہے۔ آفات کی سیاہ دبیز چادر اوڑھے یہ شب دیجور ختم ہونے کو ہے اور وہ صبح طلوع ہونے کو ہے جسکا تمہیں صدیوں سے انتظار تھا۔
آو سب مل کر اس صبح جانفزا کے استقبال کی تیاری کریں، کیونکہ اسکا استقبال در حقیقت صاحب لیلۃ القدر کو خوش آمدید کہنا ہے

آو خود سازی کے تمام دریچے کھول کر مشام جان و ایمان کو تازہ کریں تاکہ پندرہ شعبان المعظم کے اہل ثابت ہوں۔
آو اس نعمت عظمی پر خدائے بزرگ و برتر کے آگے سجدہ ریز ہو کر سجدہ شکر و حمد بجا لائیں

آو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

جمعہ، 15 جنوری، 2016

احساس برتری کے گمان میں مبتلا کچھ سگ پرستوں کے نام

میں جو ہوں وہ ہوں، میں گاندھی نہیں کہ عدم برداشت پر مبنی ایک فضول سوچ کا پیروکار بنوں، میرے احساسات مجروح ہونگے تو جواب دونگا
میرے خیالات کی ترجمانی کے واسطے کوئی اور نہیں صرف میں ہی ہوں، میرا نطریہ سیدھا اور سادہ ہے، ظلم کسی بھی صورت سامنے آئے روکو، میں تماشہ دیکھ کر مصلح بننے پر ایمان نہیں رکھتا، جب بات گریبانوں اور پگڑیوں تک آجائے تو میں ہرگز ریت میں منہ نہیں دے سکتا، تمہیں میرے نظریات سے اختلاف تو ہو سکتا ہے، لیکن برتری کا احساس رکھنے کی اجازت نہیں، اور میں کسی صورت یہ گوارہ نہیں کر سکتا کہ شعبدے باز نما سرکس کے بندر جو اپنے حرام الدہر نطریاتی ماں باپ کے بد بو دار اور زہریلے پراپیگنڈے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کو پنپنے دوں، تمہیں کیا لگتا ہے ہم پالیسی نہیں سمجھتے؟ کچھ لوگوں کا مشن ہے اپنی بدبو دار سوچ مسلط کرنا جو وہ کرتے آئے اور انکے آگے ہو تم جو مزاحمت کی صورت میں زاتیات اور واہیات کی بحث میں الجھا کر مذاحم کو پسپا کرنے پر تل جاتے ہو، یاد رکھو تمھاری اس ذہنیت کو جاننے کے بعد ہی  میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سوچ و فکر کی جنگ میں لڑنا دونوں محاذوں پر پڑے گا، پراپیگنڈہ کسی بھی محاذ پر ہو جواب ہر طرف سے دینا پڑے گا، جیسا سوال ویسا جواب، کم از کم مجھ سے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اسلاف کی کارکردگی کے نام پر بغض اور تبرے سے بھرے بغض کو علیحدہ علیحدہ دیکھوں، میرے لئے دونوں ایک ہی ہیں، امیر شام کے دور میں منبروں سے تبرا کا معیار ہرگز وہ نہیں ہوتا تھا جو گلی کوچوں اور بازاروں میں ہوتا تھا، مقصدیت دونوں کی ایک ہی ہوتی تھی، اسی طرح آج بھی تمھاری ہزیان گوئی ہو، یا تاریخی سرقہ مقصدیت ایک ہی ہے، اپنے اندر کے احساس برتری کو تقویت دینا، میری ذاتی رائے کے مطابق تاریخ و ادب کے نام پر تم نے جتنے افسانے تراشے انکا جواب دینے کو بہت ہیں، چپ بیٹھنا انکی مجبوری بنا دیا تھا تم نے ایک قسم کی  تہزیب سے لیس سپاہیوں کے آگے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بات کرتا تو یہ تہزیب کے ستائے اپنی علمیت جو صرف جاٹوں کی زبان سے لیس ہے سے اسکو اتنی پیچیدگیوں میں الجھا دیتے کہ وہ بیچارہ اپنی عزت بچانے میں ہی بہتری سمجھتا، شب گزشتہ کا سبق تمھارے لئے یوں ضروری تھا کہ تمھاری سوچ کو تمھاری سوچ سے ہی مارا جاوے ، تمھارا ہتھیار ایک دفعہ تم پر اٹھا کر دیکھا جاوے، پگڑی اچھالنا کیا ہوتا ہے یہ تم کو بھی سمجھایا جاوے اور انکو بھی جو خوف کو خود پر طاری رکھتے ہیں یا اسمارٹنیس کے چکر میں چھوٹ دیتے ہیں۔ میں نے کہا میں گاندھی نہیں، نہ ہی سر سید، میں مقلد ہوں ان جوانوں کا جنہوں نے کامل آذادی کو اپنا نصب العین بنایا اور مارے گئے، میرے بہت سے احباب اور اساتذہ کو میری زبان سے کل تکلیف پہنچی، ممکن ہے طریقہ کار سے اختلاف ہو لیکن مجھے اس پر صرف یہ کہنا ہے کہ گلی کے کتے اور محلے کے غنڈے دونوں کو اگنور نہیں کیا جاتا، گلی کے کتے کو کبھی پتھر بھی مارنے پڑتے ہیں، اور محلے کے غنڈے کو کبھی سبق بھی سکھانا پڑتا ہے، احساس برتری کے مارے چند عصبیت پسندوں کو اوقات دکھلانا مقصود تھا اور انکی مجبوری ہے کہ وہ ایک ہی زبان سمجھتے ہیں، تاریخ گواہ ہے جس نے انکو شٹ اپ کال دی اس سے کبھی نہیں الجھے چاہے وہ شمالی جانب سے آئے حملہ آور ہوں یا جنوب سے

میری جنگ سوچ سے ہے جس روپ میں آئے گی اس روپ میں مقابلہ کروں گا، پھر واضح کردوں کسی قوم یا زبان سے نہیں ایک سوچ سے جنگ ہے جو جاری رہے گی

بدھ، 25 مارچ، 2015

کیونکہ تمھاری زبان، عقل اور نیت سب ہی گندی ہیں

انگریز چلے گئے لیکن اپنے پیچھے انھیں چھوڑ گئے جنھہوں نے نہ تو تحریک پاکستان میں حصہ لیا نہ ہی تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کو سپورٹ کیا، تاریخ پڑھ لیجئے موجودہ پاکستان کے کس حصے نے مسلم لیگ کے خلاف ووٹ ڈالے تھے 1946 میں ، ساتھ ہی ان کالے انگریزوں میں اپنا "تقسیم کرو اور حکومت کرو" والا فارمولہ چھوڑ گئے جسے ان کالے انگریزوں نے بخوبی استعمال کیا اور پاکستان میں موجود تقریبا تمام قومیتوں کا خوب استحصال کیا
جس کی گواہ پاکستان کی تاریخ ہے۔ خیر بات کرتے ہیں سیدھا کراچی کی، نجانے آنکھ کا کون سا اینگل ہے جس سے کراچی اور کراچی والوں کو دیکھا جاتا رہا ہے، آج لوگ پھبتی کستے ہیں کہ یہ "مہاجر" کیا ہوتا ہے؟ اردو بولنے والے خود کو مہاجر کیسے کہ سکتے ہیں؟، ایم کیو ایم اور الطاف حسین پاکستانیوں میں لفظ مہاجر کی بنیاد پر تفریق پیدا کر رہے ہیں، ان عقل کے اندھوں نے یا تو تاریخ نہیں پڑھی یا پھر جان بوجھ کر اپنے بغض کو عیاں کرنے کے واسطے اس سے نظر ہٹا لیتے ہیں،


 آئیے 1965 میں چلتے ہیں جب فوجی صدر کی فتح کے جشن میں صرف اردو بولنے والی آبادیوں کو چھلینی کیا گیا، کیا اس وقت ایم کیو ایم تھی؟ 1972 میں چلیں جب سندھی زبان کا بل پاس ہونے پر ایک دفعہ پھر اردو بولنے والی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا، کیا اس وقت بھی ایم کیو ایم تھی؟ کیا اس وقت اردو بولنے والوں کو مہاجر کہ کر انکی آبادیوں کو تاراج نہیں کیا گیا؟
آئیے 1985 کا سفر کریں جب ایک بس حادثے میں طالبہ کی موت کے بعد اردو جو فسادات پھوٹے ان میں بھی ٹارگیٹ اردو بولنے والوں کو کیا گیا اور مہاجر اس وقت بھی کہا گیا، یاد رہے کہ اس وقت حالات ایسے خراب ہوئے تھے کہ فوج کو کراچی میں کرفیو لگانا پڑا، اب پھر وہی سوال کیا اس وقت بھی ایم کیو ایم تھی؟ کیا مہاجر کا نعرہ ان دنوں بھی ایم کیو ایم نے 
بلند کیا؟


جب آپ ایک مخصوص آبادی کو ایک مخصوص نام کے ساتھ نشانہ بناو تو اسوقت تفریق نہیں ہاں جب وہ لوگ آپ کا ہی دیا نام قبول کر لیں تو تفریق شروع، کمال کی نگاہ ہے آپکی۔

شرم آنی چاہئے انکو جو ایم کیو ایم کا سیاسی نظریہ جانے بغیر صرف اپنے اندر کا زہر باہر نکالنے کی خاطر الطاف حسین کی شکل و صورت یا پھر انکے انداز خطابت کا مزاق اڑاتے ہوئے ایم کیو ایم کی پوری سیاسی جدو جہد سے نظر ہٹا لیتے ہیں، کالے انگریز تنقید کریں سیاسی بنیادوں پر، سیاسی فلسفہ پر، سیاسی عمل پر قبول ہوگا، ذاتیات پر حملہ کرکے آپ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کو بس الطاف فوبیا اور بغض کراچی ہے، قصور اپکا بھی نہیں آپکو جو دکھایا گیا اور جو سنایا گیا اس پر آپ ایمان لے آئے بس تصدیق نہیں کی۔ 

چلیں مجھے ایک سیاسی لیڈر کا نام بتا دیں جس کے پاس ملک کی ایک اکثریت کا ووٹ ہو اور وہ خود کبھی بھی کسی سیٹ یا عہدے کا امیدوار نا بنا ہو، ڈھوند لیں نطر الطاف حسین پر ہی ٹکے گی

مجھے ایک سیاسی پارٹی کا نام بتا دیں جس نے اسمبلیوں میں اپنے کارکنان کو بھیجا ہو سرمایہ کی بنیاد پر ٹکٹ فروخت نہ کی ہو، ڈھونڈ لیں نظر الطاف حسین پر ہی ٹکے گی۔

مجھے ایک سیاسی پارٹی کا نام بتا دیں جس نے بنگلہ دیش کے محصورین کا مسئلہ مستقل اٹھا رکھا ہو کہ وہ جو سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستانی رہنے کو ترجیح دیئے رہے انکو پاکستان میں اباد کیا جائے، نظر دورا لیں صرف الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہی دکھے گی۔

ایم کیو ایم پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ جی کراچی میں بھتہ لیتے ہیں یہ ایم کیو ایم والے، اول تو ایک بات صاف کرلیں آپ کے فرشتے یعنی رینجرز ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ بھتے کی کاروائیوں میں کالعدم تنظیمیں مصروف ہین لیکن بھلا ہو کالے انگریزوں کے ان کالے گماشتوں کا جو صحافی کے روپ میں زہر پھیلانے میں مشغول رہے ہیں کہ وہ ایسی خبریں اپنی کالی انگریز غلام قوم تک پہنچنے ہی نہیں دیتے اگر پہنچ بھی جائیں تو اخبار میں اندر کے صفحات اور ٹی وی پر نان پرائم تائم کی خبروں کا حصہ بنا دیتے ہیں، اب بات کریں آپ کے مطابق چلیں مان لیا سارا بھتا ایم کیو ایم لیتی ہے جس سے ملک کی معیشت کو نقصان ہوتا ہے کتنا ہوتا ہے آئیے حساب لگاتے ہیں

کالے بجٹ کے مطابق کراچی میں 20 ملین کا بھتہ لیا جاتا ہے اور رینجرز کے مطابق 10 ملین کا یہ تو ہوگیا آپ کے مطابق ایم کیو ایم کا ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے میں حصہ اب آئیۓ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے دیگر عوامل دیکھتے ہیں اور سیدھا ان عوامل کو دیکھتے ہیں جو ہمیشہ ایم کیو ایم کے خلاف بات کرتے ہیں 

لاہور ہائیکورٹ کے مطابق ایک ریٹائرڈ ائر مارشل نے  40 پرانے میراج جنگجوؤں کی خریداری میں رشوت کے طور پر 180 ملین وصول کئے تھے
سوال 20 ملین زیادہ یا 180 ملین؟

آگے چلتے ہیں 
فوج کیلئے خریدی گئی جیپز کے سودے میں 510 ملین کا گھپلا کیا گیا سینئر فوجی افسران کی جانب سے، یہ میں نہیں کہ رہا آپکا قومی احتساب بیورو کہ رہا ہے
بتائیے 20 ملین زیادہ یا پھر 510 ملین؟

آگے چلیں 
 ایک سابق فوجی حکومت نے  کھاد فروختکا معاہدہ کیا7 بلین میں اور اس کے عوض 2 بلین کمیشن وصول کیا

بتائیے 20 ملین زیادہ یا پھر 2 بلین؟
.یہ ہیں فرشتے ، یہ معیشت کو نقصان پہنچانے کا حق رکھتے ہیں کوئی اور پہنچائے تو ملک دشمن رسما یہ بھی جان لیجئے کہ پاکستانی فوج کا  پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں سب سے بڑا حصہ ہے. یہ کمرشل بینک، ایئر لائن، سٹیل، سیمنٹ، ٹیلی کام پٹرولیم اور توانائی، تعلیم، کھیلوں، صحت کی دیکھ بھال اور گروسری کی دکانوں اور بیکریوں کی چینز تک  چلاتی ہے.
مختصر یہ کہ  فوج کی اجارہ داری پاکستان معیشت کے ہر شعبے میں موجود ہے.اسکے  برعکس، پیشہ ور سطح پر اس کی کارکردگی صفر ہے.  بجائے اس کی کہ یہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرے ، دنیا میں ساتویں سب سے بڑی فوج کے طور پرجانے جانی والی فوج صرف کارگل اور ڈھاکہ کی جنگ شعبوں میں قوم کو شرمندگی ہی دلائی ہے 

اب فرشتوں کا ذکر چھوڑ کر کالے بجٹ کی ہی بات کرتے ہین جس کے مطابق کراچی میں 20 ملین کا بھتہ لیا جاتا ہے اسی رپورٹ میں کچھ اور انکشاف بھی ہیں 

اس رپورٹ کے مطابق کراچی کے کالے دھندے میں سب سے بڑا حصہ پولیس مافیا کا ہے جو یقیننا ایم کیو ایم سے تعلق نہیں رکھتی، اسکے خلاف آپریشن کا انتظار رہے گا، دوسرے نمبر پر حصہ ہے قبضہ مافیا کا جس کی اکثریت غیر اردو بولنے والے غیر مقامیوں پر مشتمل ہے، تیسرا برا حصہ ہے جوے کے اڈوں کا جس کے بارے میدیا نے اکثر رپورٹ کیا ہے کہ اس کاروبار میں رینجرز ملوث ہیں، انکے خلاف بھی آپریشن کا انتظار رہے گا، چوتھا بڑا حصہ ہے پانی مافیا کا ایک دفعہ پھر کراچی میں میں ہائیڈرنٹس کا کاروبار آفیشلی پاکستان رینجرز کے پاس ہے انکے خلاف بھی آپریشن کا انتظار رہے گا
باقی تفصیلات آپکے سامنے ہیں 


اگر ملکی معیشت کو بچانے کے واسطے کراچی آپریشن ضروری ہے ان سب مافیاوں کے خلاف بھی آپریشن کی ڈیمانڈ کرو 
کیونکہ بھتا تو اس کاروبار کا 3 فیصد بھی نہیں

آخر میں لوگ بات کرتے ہیں کہ جی کراچی میں بوری میں بند لعشیں ملتی ہیں تو ذرا تفصیل جان لیجئے بوری میں لعشیں فوجی آپریشن کے دور میں ملی تھیں اور مماثلت جاننی ہو تو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران جو مسخ شدہ لعشیں ملتی 
رہتی ہیں ، ان سے جان لیجئے کہ ایسے لعشیں پھینکے کا رحجان کس کا ہے

امید ہے ان چیدہ چہدہ تفصیلات کے بعد کالے انگریز جرمن قوم کی طرح اپنے احساس تفاخر سے باہر آکر پاکستانی بن کر سوچیں گے اگر نہ بھی سوچیں تو فرق کیا پڑے گا؟ تاریخ شاہد ہے تم نے جب بھی کسی لسانی اکائی کو دبانے کی کوشش کی منہ کی ہی کھائی ہے اور کھاتے رہو گے کیونکہ تمھاری زبان، عقل اور نیت سب ہی گندی ہیں

ہو چکی خاک و خون کی ہولی
اے کراچی آ تجھے گلاب کریں
آگ جس نے لگائی گلشن کو
آو اب اسکا احتساب کریں
نوٹ: یہ بھی واضح کردوں کہ نہ تو میں کبھی ایم کیو ایم کا کارکن کا رہا ہوں ، نہ ہی اسکا حصہ ، بلکہ نہت ساری سیاسی پالیسیز پر ایم کیو ایم کا نقاد بھی رہا ہوں لیکن ایک انسان ہونے کی حیثیت سے تعصبی نطر رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنا ضروری ہیں۔