جمعرات، 21 جون، 2012

اسے کہتے ہیں زور کا جھٹکا۔ راجہ رینٹل پاور اشرف نئے وزیر اعظم پاکستان

ایک اشتہار آتا تھا جس میں ماڈل کہا کرتی تھی اولیویا شکریہ ، آج وہ اشتہار بہت یاد آ رہا ہے کیونکہ سمجھ نہیں آتا اپنے پیارے
 صدر صاحب کو کس منہ سے شکریہ کہیں تو سوچا اس ہی ماڈل کا منہ مانگ لیتے ہیں اور اس منہ سے شکریہ کہ دیتے ہیں ک جناب صدر نے قوم کی نبض پر ہاتھ رک کر صحیح طبیب تجویز کیا ہے، محترم جناب راجہ رینٹل پاور اشرف جو الیکشن میں راجہ پرویز اشرف کے نام سے حصہ لیتے ہیں۔
راجہ صاحب کی راج دہانی میں یوں تو سب کچھ ہے بس وہ نہیں جس کی اس قوم کو ضرورت ہے۔ راجہ صاحب کی وجہ شہرت یوں تو بہت ساری ہیں لیکن جو وجہ قوم کی یاداشت میں محفوظ ہے اس کا تعلق قومی بیماری ےیعنی لوڈشیڈنگ سے ہے ۔راجہ صاحب اپنے دور وزارت میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے ھمیشا وعدے کرتے رہے لیکن عمل اس مقولے پر کرتے رہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ ہاں بجلی میں اضافے کے لئے انکی عملی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں جو انہوں نے لا تعداد رینٹل پاور کے منصوبے سائن کرنے کی صورت میں کی تھی لیکن بھلا ہو عدلیہ کا ہر معاہدے پر یک جنبش قلم خط تنسیخ پھیر دی اب نجانےاس فیصلے کے پیچھے پی پی سے مخاصمت تھی یا راجہ صاحب کی نا اہلی ہم تو یہ جانتے ہیں کہ راجہ صاحب بجلی نا لا سکے اور نا لا سکیں گے کیونکہ عدلیا وہی اور راجہ صاحب بھی وہی۔ صدر صاحب ایک اور سیاسی شھہد وزیر اعظم کی راہ تک رہے ہیں تاکہ اگلے الیکشن میں پی پی کے پاس رونے کو کچھ تو ہو۔

رہی قوم تو وہ راجہ رینٹل پاور المشہور راجہ اندھیر اشرف کو بھی جھیل لے گی کیونکہ اسے جھیلنے کی عادت ہی

بدھ، 20 جون، 2012

بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب



بچپن گزرنے کے بعد جب عہد شباب میں داخل ہوئے اور چلمنوں اور پردوں کی آڑ میں چھپی مہ جبینوں میں کچھ دلچسپی محسوس ہوئی تو ساتھ رہنے والے دوستوں سے پتا چلا کہ مہ جبینوں تک حال دل پہنچانے کا آزمودہ زریعہ خط و کتابت ہے سو صدر کراچی سے ایک سو ایک زخمی اشعار اٹھائے اور لکھنے لکھانے کے سلسلے کو چالو کرنے کی کوشش شروع کردی۔ آپ یقیننا حیرت زدہ ہوں گے یہ کیا بے وقت کا راگ الاپ رہا ہوں لیکن کیا کریں اس وقت موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے نہ چینی مصنوعات کی اتنی ریل پیل تھی۔ خیر بتانا یہ مقصود تھا کہ خط لکھنے کی اہمیت و افادیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی خط لکھنے کے لئے اور اس کو پہنچانے کے لئے بچپن میں کوشش کی ہو وہ بھلا خط کی اہمیت کو کیا جانیں جنہیں پچپن میں عدالتی حکم موصول ہو کہ خط لکھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو جب عدالت نے حکم دیا تو وہ بیچارے یقیننا شش و پنج کا شکار ہو گئے ہونگے کہ خط کیسے لکھا جائے، قیاس کہتا ہے کہ شاید انھوں نے مدد کے لئے لاکھہ دکھوں کی ایک دوا رحمان ملک کو رابطہ کیا ہو جنہوں نے ٹیکنالوجی کی اہمیت اور شرپسندوں کی جانب سے اس کے استعمال پر بھرپور لیکچر دیتے ہوئے بتایا ہو کہ اس دور میں خط لکھنا زیب نہیں دیتا بیرون ملک عناصر ہمیں کتنا گیا گزرا سمجھیں گے توبلآخر گیلانی صاحب نے خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا اور عدالت بیچاری کیا کرتی وہ ٹھہری پرانے خیالات کی حامل اس کا اصرار تو صرف خط ہی لکھنے پر تھا مجبور ہو کہ دونوں کو ہی معطل کر دیا۔ لیکن اگر عدالت چاہتی تو وہ متبادل زرائع جیسے فون کال یا ایس ایم ایس کی اجازت دے کر دو وزارتیں بچا سکتی تھی۔ اب اگلا وزیر اعظم بھی اگر خط نہ لکھےتو وہ بھی معطل ہوگا؟ ہمارا عدالت عالیہ و عائشہ و عمارہ کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ متبادل زرائع پر غور کرلے ورنہ وزراء تو آتے جاتے رہیں گے صدر صاحب نہیں جانے والے جو آپ کا اصلی ہدف ہیں۔ 

منگل، 19 جون، 2012

گیلانی کی نا اہلی اور میڈیا کی دکان

گیلانی کی نا اہلی اور ارسلان افتخار کے کیس میں یوں تو کوئی رابطہ نہیں لیکن کیا کریں جیسے چیف صاحب لٹھ لے کے گیلانی حکومت کے پیچھے پڑے تھے اور گیلانی حکومت جیسے چیف صاحب کے احکامات کی دھجیاں اڑانے میں مصروف تھے اس جزباتی رومانس کا نتیجہ تو نکلنا تھا۔ ایک طرف وکلاء برادری کی طرف سے یہ شور کہ ارسلان افتخار کیس کے پیچھے حکومت ہے اور دوسری طرف اس کیس کی سماعت کے دوران ھی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ کوئی تعلق تو ہے باس۔

بھلا ھو اس نورا کشتی کا کہ سنسنی پھیلانے والوں کو بے لاگ اور بے باگ جزبات کے لئے موضوع دے گئی اب حامد میر ہو کہ مبشر لقمان سب کا چورن بکے گا اور خوب بکے گا گیلانی کی سیاسی خودکشی میڈیا کو ایک نیا موضوع دے گئی اب ڈور ہو گی کہ کون پہلے گیلانی صاحب کا خصوصی انٹرویو کر کے ریٹنگ بڑھائے گا اور عوام کے سامنے نئے انکشافات لائے گا جس کی تصدیق ایک اور موضوع گفتگو ہوگی جو اگلے الیکشن تک ہوتی رہے گی۔

ہاں اگر اس بیچ قوم کے بنیادی حقوق کی خبر دب جائے تو حرج کوئی نہیں کیونکہ آزاد عدلیہ کی طرح آزاد میڈیا بھی جانتا ہے کہ اس قوم کا پانی بجلی اور گیس کے بغیر تو گزارا ہے مگر سیاست کے بغیر نہیں۔

 میڈیا کی دکان پر تبصروں کے پکوان پکیں گے اور عوام خیالی فلاحی سلطنت کے خواب دیکھیں گے۔