جمعہ، 15 جنوری، 2016

احساس برتری کے گمان میں مبتلا کچھ سگ پرستوں کے نام

میں جو ہوں وہ ہوں، میں گاندھی نہیں کہ عدم برداشت پر مبنی ایک فضول سوچ کا پیروکار بنوں، میرے احساسات مجروح ہونگے تو جواب دونگا
میرے خیالات کی ترجمانی کے واسطے کوئی اور نہیں صرف میں ہی ہوں، میرا نطریہ سیدھا اور سادہ ہے، ظلم کسی بھی صورت سامنے آئے روکو، میں تماشہ دیکھ کر مصلح بننے پر ایمان نہیں رکھتا، جب بات گریبانوں اور پگڑیوں تک آجائے تو میں ہرگز ریت میں منہ نہیں دے سکتا، تمہیں میرے نظریات سے اختلاف تو ہو سکتا ہے، لیکن برتری کا احساس رکھنے کی اجازت نہیں، اور میں کسی صورت یہ گوارہ نہیں کر سکتا کہ شعبدے باز نما سرکس کے بندر جو اپنے حرام الدہر نطریاتی ماں باپ کے بد بو دار اور زہریلے پراپیگنڈے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کو پنپنے دوں، تمہیں کیا لگتا ہے ہم پالیسی نہیں سمجھتے؟ کچھ لوگوں کا مشن ہے اپنی بدبو دار سوچ مسلط کرنا جو وہ کرتے آئے اور انکے آگے ہو تم جو مزاحمت کی صورت میں زاتیات اور واہیات کی بحث میں الجھا کر مذاحم کو پسپا کرنے پر تل جاتے ہو، یاد رکھو تمھاری اس ذہنیت کو جاننے کے بعد ہی  میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سوچ و فکر کی جنگ میں لڑنا دونوں محاذوں پر پڑے گا، پراپیگنڈہ کسی بھی محاذ پر ہو جواب ہر طرف سے دینا پڑے گا، جیسا سوال ویسا جواب، کم از کم مجھ سے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اسلاف کی کارکردگی کے نام پر بغض اور تبرے سے بھرے بغض کو علیحدہ علیحدہ دیکھوں، میرے لئے دونوں ایک ہی ہیں، امیر شام کے دور میں منبروں سے تبرا کا معیار ہرگز وہ نہیں ہوتا تھا جو گلی کوچوں اور بازاروں میں ہوتا تھا، مقصدیت دونوں کی ایک ہی ہوتی تھی، اسی طرح آج بھی تمھاری ہزیان گوئی ہو، یا تاریخی سرقہ مقصدیت ایک ہی ہے، اپنے اندر کے احساس برتری کو تقویت دینا، میری ذاتی رائے کے مطابق تاریخ و ادب کے نام پر تم نے جتنے افسانے تراشے انکا جواب دینے کو بہت ہیں، چپ بیٹھنا انکی مجبوری بنا دیا تھا تم نے ایک قسم کی  تہزیب سے لیس سپاہیوں کے آگے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بات کرتا تو یہ تہزیب کے ستائے اپنی علمیت جو صرف جاٹوں کی زبان سے لیس ہے سے اسکو اتنی پیچیدگیوں میں الجھا دیتے کہ وہ بیچارہ اپنی عزت بچانے میں ہی بہتری سمجھتا، شب گزشتہ کا سبق تمھارے لئے یوں ضروری تھا کہ تمھاری سوچ کو تمھاری سوچ سے ہی مارا جاوے ، تمھارا ہتھیار ایک دفعہ تم پر اٹھا کر دیکھا جاوے، پگڑی اچھالنا کیا ہوتا ہے یہ تم کو بھی سمجھایا جاوے اور انکو بھی جو خوف کو خود پر طاری رکھتے ہیں یا اسمارٹنیس کے چکر میں چھوٹ دیتے ہیں۔ میں نے کہا میں گاندھی نہیں، نہ ہی سر سید، میں مقلد ہوں ان جوانوں کا جنہوں نے کامل آذادی کو اپنا نصب العین بنایا اور مارے گئے، میرے بہت سے احباب اور اساتذہ کو میری زبان سے کل تکلیف پہنچی، ممکن ہے طریقہ کار سے اختلاف ہو لیکن مجھے اس پر صرف یہ کہنا ہے کہ گلی کے کتے اور محلے کے غنڈے دونوں کو اگنور نہیں کیا جاتا، گلی کے کتے کو کبھی پتھر بھی مارنے پڑتے ہیں، اور محلے کے غنڈے کو کبھی سبق بھی سکھانا پڑتا ہے، احساس برتری کے مارے چند عصبیت پسندوں کو اوقات دکھلانا مقصود تھا اور انکی مجبوری ہے کہ وہ ایک ہی زبان سمجھتے ہیں، تاریخ گواہ ہے جس نے انکو شٹ اپ کال دی اس سے کبھی نہیں الجھے چاہے وہ شمالی جانب سے آئے حملہ آور ہوں یا جنوب سے

میری جنگ سوچ سے ہے جس روپ میں آئے گی اس روپ میں مقابلہ کروں گا، پھر واضح کردوں کسی قوم یا زبان سے نہیں ایک سوچ سے جنگ ہے جو جاری رہے گی