اتوار، 27 نومبر، 2016

جاگیردارانہ سوچ اور ہم

سنتے آئے ہیں کہ جب سقراط زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا "اے استاد! بتا ہم تیری تجہیز و تکفین کن رسموں کے مطابق ادا کریں؟" "میری تجہیز و تکفین؟ " سقراط ہنسا اور پھر سنجیدہ ہو کر کہنے لگا، "کریٹو! میں نے تمام لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ الفاظ کو انکے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو، لگتا ہے تمھیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے یاد رکھو الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔"


بدقسمتی سے ہماری زبان میں کچھ الفاظ اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہونے کے بجائے غلط معنوں میں استعمال کئے جاتے ہیں جیسے لفظ "کمین" کو ہی لے لیجئے کمین ہمارے معاشرے میں گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حقارت اور زلالت کا استعارہ یہ لفظ بعض اوقات گالی کی صورت بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ کمینہ کمینگی جیسے الفاظ کسی انسان کی خصلت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ لفظ کمین کا ماخز کمی ہے جس کا مطلب محنت کرنے والا ہوتا ہے۔ اب اس کو جاگیردارانہ سوچ کے اثرات کہئے یا سرمایہ دارانہ توسیع پسندی کا ہتھیار، ہم نے محنت کرنے والے کو محنت نہ کرنے والوں سے ممتاز کرنے کے بجائے اس کو حقیر و ادنی بنا دیا۔



الفاظ کے غلط استعمال کے گناہ میں ہم نے خود کو خوساختہ پیمانوں مقید کر لیا اور گناہ در گناہ در گناہ کے مستقل مرتکب ہوئے جا رہے ہیں۔
ہماری زبان میں لفظ "شریف" کا استعمال کردار کی ایک خوبی اور وصف ہوتا ہے یعنی جب کہا جائے کہ فلاں شخص شریف ہے تو مطلب یوں نکلتا ہے کہ اس شخص کا کردار انتہائ نیک اور پاکباز ہے لیکن اگر اس لفظ کے ماخز کو دیکھا جائے تو پتہ چلے کہ لفظ شریف شرف سے نکلا ہے جس کی جمع اشراف ہوا کرتی ہے۔ یہ لفظ عموما امراء، والیوں اور شہزادوں کے لئے استعمال ہوتا تھا اور فی زمانہ شریف اور اشراف وہ لوگ ہوئے جو امیر دولت مند یا صاحب اقتدار ہوئے۔
تو طے یہ پایا کہ شرافت وہ خوبی اور وصف ہے جس کے حامل معاشرے کا حکمران طبقہ یا جاگیردار ٹہرے اور آگے چلتے ہیں۔ لفظ آتا ہے "معزز" جس کا ماخز ہے عز جس کے معنی طاقت و قوت ہیں یہ لفظ بھی معاشرے میں با اثر اور صاحب اقتدار طبقے کے ایک وصف کو ظاہر کرتا ہے یعنی شریف و معزز وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار و قوت ہوں جبکہ کمی اور کمین وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار اور صاحب قوت افراد کی یا طبقے کی قوت و قتدار میں اضافے کے لئے دن رات اپنا خون پسینہ ایک کریں۔


ستم بالائے ستم دیکھئے کہ معاشرے میں محنت کرنے والے افراد کو وفاداری، اطاعت گزاری، جانثاری اور ایثار کی قدروں سے بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر آقا کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری میں کوئ کمی آ گئ تو وہ نمک حرامی تصور کی جائے گی اور اگر آقا کی قوت و اختیار میں اضافے کے لئے جانثاری کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ نمک حلالی
تصور کی جائے گی۔


کیا آپ کو نہیں لگتا کہ معاشرتی نظام میں مساوات کی دھجیاں اڑانے میں ان الفاظ کے استعمال نے کلیدی کردار ادا کیا ہے؟


کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آقا، مالک، غلام جیسے الفاظ صرف اور صرف استحصال کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں اگر ہم ان الفاظ کے غلط استعمال جھونجھل سے خود کو آزاد کرا لیں تو ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کافی حد تک دور ہو سکتی ہے۔

سقراط نے صحیح کہا کہ الفاظ کا غلط استعمال گناہ ہے اور ہم اس گناہ عظیم میں مبتلا ہیں۔


ہم میں اکثریت نےذہنی طور پر ناصرف اس طبقاتی تقسیم کو قبول کیا ہوا ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس اقلیتی طبقے کا رکن بن جائے اور یہی اس کی زندگی کی معراج ہوتی ہے۔


عام سے خاص تک، ادنی سے اعلی تک، اسفل سے افضل تک، کمتر سے برتر تک، رزیل سے شریف تک، حقیر سے
معزز تک، غریب سے امیر تک اور مجہول سے خاندانی تک پہنچنا ہماری زندگی کی طبقاتی جدو جہد ہمارا مقصد حیات بن
جاتا ہے۔

کہیں پڑھا تھا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ

میں ابتدا میں روئ دھنے والا تھاپھر شیخ بن گیا
اگر اناج سستا ہو گیا تو میں اس سال سید بن جاونگا۔

ذات پات، نسل، خاندان ،شریف خون اور خون کی پاکیزگی جیسے الفاظ کو فروغ دینے میں ہمارے ادب کا بھی بہت اہم کردار ہے



میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کب تک اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟ ہم۔کیونکر اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟


میں اکثر سوچتا ہوں اور سوچتا ہی رہ جاتا ہوں