tag:blogger.com,1999:blog-48244143897045747202024-03-05T22:52:06.341-08:00میں تو بولوں گاAlymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.comBlogger17125tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-75362629640941353272022-04-17T15:45:00.000-07:002022-04-17T15:45:32.379-07:00میں اور میرا تؑصب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<h4 style="height: 0px; text-align: left;">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;">میں اعلانیہ طور پر ایک تعصبی ہوں اور مجھے اپنے تعصب پر کوئ شرمندگی نہیں ہے۔ میں نے اپنی زاتی زندگی تک جو چیز بھی دیکھی اس کو تعصب کی عینک لگا کر دیکھا۔ سیدھی سی بات ہے تعصبی ہوں تو تعصب کی عینک ہی لگا کر دیکھوں گا۔ میں نہیں جانتا میں نے یہ تعصب کی عینک کب پہنی لیکن میں یہ جنتا ہوں کہ میں نے پہنی۔ تعصبی ہونے کا ایک نقصان ہے کہ مجھ جیسا تعصبی سیدھی سادھی بات کو بھی تعصب کے پیمانے میں تولتا ہے۔ مجھے اس اقرار میں بھی کوئ شرمندگی نہیں ہے کہ اوائل جواںی میں، میں نے گورمنٹ کامرس کالج فیشن ایبل اور برگروں کے تعلیمی ادارے میں چھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمعیت کا یونٹ کھولا۔ غالباً اس دور میں بھی میں تعصب کی عینک لگائے بیٹھا تھا۔ اس دور میں اندرون کراچی اور بیرون کراچی منعقد ہونے والے مباحثوں میں بولنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تعصب ہی تو تھا، جو اسامہ بن رضی جیسے محترم استاد کے زیر سایہ رہنے والا ایک کٹر جماعتی کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل عام ہر مباحثوں میں اپنی آواز اٹھاتا رہا۔</span></div>
<span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
بحیثیت جماعتی میرا کام تو یہ بنتا تھا کہ میں ایم کیو ایم کے کارکنان کے قتل عام پر یا تو چپ رہتا یا جیسے آج لوگ سراہتے ہیں ویسے ہی اس اقدام کو سراہتا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
لیکن پھر وہ کیا چیز تھی جس نے اس جماعتی کو ایم کیو ایم کے حق میں بولنے پر مجبور کیا، جبکہ وہ جماعتی ایک ذمہ دار بھی تھا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
غالباً اس کے پیچھے موجود تعصب کارفرما تھا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میں نے کراچی آپریشن کو مہاجر نسل کشی مانا تھا یہ بھی تعصب تھا اور یہ تعصب اسوقت بھی دکھا جب فقط اردو بولنے کے جرم میں غیر مقامی رینجرز چیک پوسٹ کا تین گھنٹے تک نفسیاتی اذیتکا نشانہ بنا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
اگر میں تعصبی نہ ہوتا تو میں یہ سوچتا کہ یہ اہلکار میری حفاظت کے لئے اسقدر چوکنے ہیں کہ مجھے مشکوک سمجھ کر میرے اہلخانہ اور میرے شہریوں کی حفاظت کی خاطر تین گھنٹے تک ہوچھ گچھ کرتے رہے لیکن میں ایسا سوچ نہیں سکا کیونکہ میں بہرحال ایک تعصبی ہوں۔ میں نے ہڑھا کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میرے قبیلے پر ملک دشمنی کے الزامات دھر دئے، میں نے اس وقت بھی ان پر یقین نہیں کیا کیوںکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں کہا گیا کہ جناح پور کے نقشے برآمد کر لئے گئے، کہا گیا کہ ملک دشمن لٹریچر برامد کر لیا گیا، میں نے اخباروں میں پڑھا، یقین کرنے کو دل نہیں کیا، اصولاً تو یقین کر لینا چاہئے تھا لیکن نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے جن پولیس مقابلوں کی تصاویر سامنے آئیں ان میں ہلاک ہونے والے افراد کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
بتاؤ بھلا کوئ زیر حراست ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے طوق پہنے کیسے پولیس سے مقابلہ کر سکتا کے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
قانون نافز کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں تھا اس لئے نقشوں اور لٹریچر کی برآمدگی مشکوک ٹہری۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
یا ممکن ہے کہ میرے تعصب نے ان کو مشکوک بنا دیا کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
وقت کا پہیہ چلتا رہا، تعلیمی زندگی ختم ہوئ اور غم روزگار کا ناگ پھن اٹھائے کھڑا ہو گیا، غلطی سے نوکری بھی ملی ایک صحافتی ادارے میں، یہاں ہڑھنے پڑھانے کے مواقع اور کھل کر سامنے آئے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
مشاہدہ تھوڑا سا اور قوی ہوا،</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
پڑھا کہ جناب!</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
مملکت پاکستاں کی تاریخ بڑے بڑے پردوں کے پیچھے چھپی ہے، یعنی اس ریاست میں ظالم طبقہ ہے جس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وسائل دوسروں کے ہوں قبضہ صرف ان کا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
بنگالی بھائیوں کو دیکھیں جن کو آج ریاست میں غدارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیا وجہ تھی 16 دسمبر 1971 کا سانحہ پیش آیا، غالباً وہ کماتے زیادہ تھے اور اپنی کمائ پر اپنا حق بھی مانگتے تھے تو غدار تو ٹہرنے ہی تھے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میرے لئے وہ غدار نہیں، انہوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی بلکل اسی طرح جیسے قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور وہاں وہ جیت گئے۔ ہاں آپ کے لئے وہ غدار ہیں کیونکہ آپ ہیں محب وطن پاکستانی اور میں بہرحال ایک تعصبی، میں نے بلوچوں کی جدوجہد کو دیکھا تو میں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا معدنیات سے بھرپور اس زمین پر جنگ ہے کس کی اور کس لئے، مجھے پیچھے پھر وہی ظالم طبقہ دکھا جو وسائل پر قبضوں کی جنگ لڑ رہا ہے تو مجھے بلوچ بھائیوں سے ہمدردی محسوس ہوئ، آپ کے لئے وہ غدار ہونگے میرے لئے نہیں۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں، پھر وہ وقت آیا جب جناح پور کے الزام لگانے والے خود ٹیلی ویژن اسکرین پر آئے اور انہوں نے آکر قبول کیا کہ ان الزامات میں کوئ صداقت نہیں تھی۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میرے تعصبی زہن میں سوال ابھرا، جنہوں نے پندرہ سال سے زائد میرے قبیلے کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رکھے تھے کیا ان کے خلاف کوئ کاروائ نہیں ہونی چاہئے لیکن سوال سوال ہی رہا،کیو کہ بہرحال ایک تعصبی زہن کی پیداوار تھا آج بھی ہماری حب الوطنی پر ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سوال پہ سوال اٹھا رہا ہے ریاست میں ریاست کے محب وطن ہم سےسوال کرتے ہیں تم مہاجر کیسے، واپس کیوں نہیں چلے جاتے، ہم گندم اگا کر تم پر احسان کرتے ہیں دو ڈنڈے پڑتے ہی تمھارے لوگ تم سے الگ ہو جاتے ہیں۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
تمھارا لیڈرباہر کیوں بیٹھا ہے؟ تم لوگ پاکستان کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
یہ باتیں مشاہدے پر نہیں گفتگو پر مبنی ہیں جو مجھ سے پنجاب میں رہنے والے انتہائ پڑھے لکھے نوجوانوں نے کیں۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
وہ مضحکہ اڑاتے ہوئے بھی محب الوطن تھے وہ میری نسلوں پر بات کرتے بھی محب الوطن تھے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میں سہتے ہوئے بھی متعصب تھا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
ارے بھائ! جواب تو سن لو سوال اٹھانا آسان ہے اور بغیرپڑھے سوال اٹھانا تو انتہائ آسان ہے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
تم نے مجھے سے سوال کیا کہ میں مہاجر کیسے؟ اسکا جواب آئینی حوالوں بارہا دے چکا ہوں۔ پنجاب تو برصغیر کی تقسیم کے ساتھ تقسیم ہو گیا تھا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
اگر میں تم سے یہ کیوں کہ تم خود کوأدھا پنجابی کیوں نہیں کہتے؟</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
اردو زبان، رسم و رواج اور ثقافت کے ملاپ کا نام ۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
فرما نے لگے کہ بھئ پنجابی بہرحال ایک قوم ہے جو کہ صوبہ پنجاب میں رہتی ہے، آپ سندھ میں رہتے ہو تو آپ سندھی کہلاو۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میں ٹہرا تعصبی میں نے سوال کر دیا کہ کراچی میں رہنے تمام پنجابی سندھی کہلواتے ہیں خودکو؟</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
جواب ملا کہ چونکہ پیچھے سے ان کا تعلق پنجاب سے ہے اس لئے وہ پنجابی کہلائیں گے۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میرے تعصب نے ایک چٹکلا اور دیا کہ پیچھے سے تو پنجاب بھی سندھ کا حصہ تھا تو اب آپ بتائیے کہ لفظ پنجابی کیوں؟ کہنے لگے کہ کچھ اور نہیں یہ آپ کا تعصب ہے جو آپ سے یہ باتیں کروا رہا ہے رہی بات گندم اگانے کی تو بھیا گندم اگانا بہرحال آپ کی محنت ہے لیکن آپکےپاس گندم بیچنے کے لئے مارکیٹ موجود ہے تو آپ کے گندم اگا رہے ہیں نا۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
کتنا ہی عجب ہو کہ اگر ہم آپکی اگائ ہوئ گندم خریدنے سے انکاری ہو جائیں اور اپنی ضرورت کے لئے گندم باہرسے برآمد کرنے لگیں پھر آپ اس گندم میں دفن ہونا پسند کریں گے یا افغانستان بیچنا پسند کریں گے؟</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میرے ان جملوں نے غالباً میرے اس تعصب کی قلعی کھول دی۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
اور محفل درہم برہم ہو گئ۔</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میں ان پنجابی نوجوانوں کو رخصت ہوتے دیکھتا رہا اور میری سوچ مجھ سے ایک ہی سوال کرتی رہی، کیوں؟ آخر کیوں تم اتنے تعصبی ہو؟ یہ عصبیت تمھارے اندر کس نے بھری ہے؟ تمھیں اس ریاست نے کیا نہیں دیا؟</div>
</span><span style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 18px;"><div style="text-align: right;">
میں نے اپنی سوچ میں غلطاں نو دسمبر کو عزیزاباد کارخ کر گیا اور عزیزاباد سے ہوتا ہوا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ انسانی حقوق کےچیمپٕن، انسانی حقوق کے علمبردار، انسانی حقوق کے مشعل لے کر دوڑ تو رہے ہیں لیکن ان کے روٹ میں عزیزآباد نہیں آتا تو میں نے اپنی سوچ سے مخاطب ہو کر کہا ابے او ایم سی! بی سی، سی سی اس تمام گفتگو کے بعد بھی اگر میرا وجود سلامت ہے تو اس کی سلامتی ضامن میرا یہی تعصب ہے۔ اب تو کوئ بھی رشتہ پیش کر مجھے قبول نہیں ہے کیونکہ میں ایک تعصبی ہوں۔ اگر تعصبی نہیں ہوتا تو مرچکا ہوتا۔</div>
</span><div style="text-align: right;">
x</div>
</h4>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-3345346223918737552018-10-21T17:26:00.000-07:002018-10-21T19:53:10.311-07:00ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو کھائے جا رہا ہے۔<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">اگر آپ نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم</span><span style="mso-spacerun: yes;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>Venom<br /> <span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">دیکھی ہے تو اس میں جو سنگم دکھایا گیا
ہے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق کو انسانوں کے ساتھ ملانے کا تجربہ ہے</span><span lang="AR-SA"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span dir="RTL" lang="AR-SA">دونوں جانداروں کے سنگم لیبارٹری میں وقوع پزیر
ہو جاتے ہیں تو سائنس دانوں کو پتہ لگتا ہے کہ سیارے سے آئ ہوئ مخلوق اندر ہی اندر
اپنے سبجیکٹ کو کھا رہی ہے۔ جگر، دل، گردے تمام اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے
ہیں۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA">دیکھنے والوں کے لئے یہ سائنس فکشن لگتی
ہے لیکن, چلیں نظریہ تبدیل کر کے دیکھتے ہیں۔ ہم انسانوں کے ساتھ ایک </span><span dir="RTL" lang="AR-SA">ہمزاد بھی جڑا
ہوتا ہے جو ایسے ہی اندر ہی اندر ہمیں کھاتا رہتا ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">پراسیس انٹرنل ہوتا ہے لیکن اس انٹرنل پراسیس
کی شروعات عموماً کسی ایکسٹرنل سورس یا بیرونی طاقت کی ہلہ شیری کی محتاج ہوتی ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">بیرون طاقتیں لاکھوں سینکڑوں، ہزاروں،
چند ایک عوامل یا عامل پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن اتنی پر اثر ہوتی ہے کہ</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span lang="AR-SA"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span dir="RTL" lang="AR-SA">ہمارے اندر وینم ہمارے وجود میں رچ جاتا
ہے</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;">آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے وہ ہمارے جسم کے
مختلف اعضاء کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;">عموماً یہ عمل انتہائ سست روی کے ساتھ شروع
ہوتا ہے اور بتدریج رفتار پکڑنا شروع کر دیتا ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">غور کریں امراض قلب, جگر، گردے، پھیپھڑے،
بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن یہ سب کیا ہیں؟</span><span dir="RTL" lang="AR-SA">یہ سب وینم کی کارفرمائ ہے جناب۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;">بعض صورتوں میں جو خصوصی صورتحال کہلاتی
ہے۔</span><span style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span style="font-weight: normal;">Venom</span><br /><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;">کی رفتار ابتدا سے ہی تیز ہوتی ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">سوال یہ ہے کہ، اس وینم سے لڑنے کا کوئ
توڑ موجود ہے؟</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA">سوال یہ ہے کہ، کوئ ایسا بٹن بھی موجود
ہے جو بیرونی طاقت کو اندرونی طاقت پر حاوی نہ آنے دے؟</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="font-weight: normal;">سوال کے جواب کو کھوجا تو </span>تصوّف کی بلندیوں
سے طب کی پستیوں تک</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"> حل بہت پیش کئے جاتے ہیں<br /> </span><span style="font-weight: normal;">انسانی طبیعت کی موافقت کس حد تک ضروری
ہوتی ہے اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
</h4>
<h4 style="text-align: center;">
شیطنیت کے پیروکاروں کو ورد پر لگانے سے
شیطنیت دور نہیں ہوتی۔ </h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">ڈرگ ایڈکٹ کو مزید ڈرگز دینے سے فرق نہیں پڑتا۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="font-weight: normal;">دنیا نے </span>ریکی سے لے کر ہپنوسس تک،نیورولنگوسٹک
پروگرامنگ سے لے کر ڈی این اے کی ہیلنگ<span style="font-weight: normal;"> تک نجانے کون کون سے فلسفے متعارف کروائے ہیں
لیکن وینم دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔</span></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو
کھائے جا رہا ہے۔</span><br /> </span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">اندرونی قوتوں کو استعمال کرنے پر کام کیا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں
کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی۔ اگر آپ کسی</span> پارک میں ہیں تو زرا ٹریک پر واک کرتے لوگوں کے چہروں ہر نظر تو دوڑائیں، اگر آپ
کسی بازار میں ہیں تو زرا مجمعے پر نظر دوڑائیں اور اگر آپ کہیں نہیں ہیں تو آئنے کے
روبرو ہی ہو جائیں۔ چہروں پر حیرت، اضطراب، سراسیمگی ، جھنجھلاہٹ, غصہ، ہر جگہ دیکھنے
کو ملے گا وجہ وہی۔ وینم کو کنٹرول کرنے کے لئے اندرونی طاقتوں کو استعمال کرنے کے
ہزارگن ایجاد کر لئے ہیں۔</span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
مگر بیرونی طاقتوں کو مادر پدر آزاد چھوڑ
دیا گیا ہے<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;">۔</span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif; font-weight: normal;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اندرونی طاقت
سے بیرونی طاقتوں کو شکست دی جا سکتی ہے، مگر میاں! وہ زمانے لد </span><span dir="RTL" lang="AR-SA"> جب خلیل میاں فاختہ
اڑایا کرتے تھے۔ سرمایا دارانہ جال میں جکڑے نظام میں اگر کسی فرد کا اندرونی حقیقی
اضطراب جانچنا ہے تو بھیڑ میں بچھڑے بچے کا تصور کر لیں، تمام کیفیات جو اس وقت اس
بچے ہر طاری ہوتی ہیں ان تمام کیفیات سے خود کو آشنا پائیں گے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="font-weight: normal;">وینم کو جکڑنے کے لئے </span>وینم کو پابند کرنے
کے لئے سائنسی ایجادات نہیں بلکہ معاشرتی اصلاحات
کی ضرورت ہے <span style="font-weight: normal;">ورنہ یہ وینم کب ہماری شخصیت پر حاوی ہو کر وہ خوفناک روپ دھارے گا جس
سے خود کو بھی خوف آئے کوئ نہیں کہہ سکتا۔</span></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;">شاید میں اول بک رہا ہوں یا فول بک رہا
ہوں، اوٹ پٹانگ لکھ رہا ہوں لیکن کیا کروں دوستوں یہ میں نہیں لکھ رہا میرے اندر کا
وینم بار بار آکر اس تحریر کا رخ بدلنے پر مجبور کر رہا ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-weight: normal;"><br /></span><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></h4>
<h4 style="text-align: center;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;">میں بھی وینم کا شکار ہوں۔ مجھے بیرونی
طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے قصے کہانیوں کی نہں۔</span></span></h4>
<div class="MsoNormal">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span style="font-family: "helvetica neue" , "arial" , "helvetica" , sans-serif;"><o:p></o:p></span></div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-77603270742653898562017-04-12T09:36:00.003-07:002017-04-12T09:36:38.890-07:00خود کلامی، کامیابی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
کامیابی ہے کیا؟<br />
کامیابی کہتے کسے ہیں؟<br />
کامیابی ہوتی کیا ہے؟<br />
یہ سوال ناگ کی طرح پھن اٹھائے میرے سامنے جھومتے رہتے ہیں اور۔۔۔۔ میں اس نہ ٹہرنے والے جھومتے پھن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینا چاہتا ہوں وہ جواب جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ جواب جو مجھے مطمئین کر سکتا ہے چونکہ ان سوالوں کو میرے صرف جواب چاہئیں ان جوابوں کا صحیح اور غلط ہونے کا تعلق میری عقل میرے علم میرے تجزیئے اور میرے مشاہدات سے جڑا ہے۔ میں نے کہا،<br />
ابے او پھن!<br />
سن!<br />
کامیابی ک ا م ی ا ب ی سات حروف کا مجموعہ ہے<br />
میں چاہوں تو ان حروف کے اوزان کو جمع کر کے ایک مرکب تیرے منہ پر مار دوں لیکن میں اس سے مطمئن نہیں ہونگا اس لئے میں اس سات حرفی مجموعے کو کچھ درجات میں بانٹ دیتا ہوں<br />
خیال رہے بانٹ رہا ہوں تقسیم نہیں کر رہا۔ <br />
<br />
پہلا درجہ جو میرے سامنے آتا ہے اس کا تعلق زہنی سکون سے ہے اب تو پوچھے گا کہ ذہنی سکون کا مطلب کیا ہے؟<br />
لیکن تو کیوں پوچھے گا مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں ۔<br />
میرے نزدیک ذہنی سکون کا سادہ اور آسان سا مطلب ہے کہ ذہن ہر قسم کے خوف سے، غصے سے اور شرمندگی سے آزاد ہو۔<br />
یہ احساسات آپکے ذہن کو اس قابل بناتے ہیں کہ آپ ذہنی آزادی حاصل کرسکیں<br />
خوف ہے تو ذہن قید میں ہے بے سکون ہے<br />
غصہ ہے تو ذہن قید میں ہے بے سکون ہے<br />
اور اگر اپنے کئے گئے کسی عمل پر شرمندگی ہے تو ذہن قید میں ہے بےسکون ہے۔<br />
<br />
خوف کس بات کا؟<br />
آنے والے نامعلوم کا؟<br />
ارے میاں! جب آنے والے کی سمت نہیں پتہ تو خوف کاہے؟<br />
جب آنے والے کی سمت نہیں پتہ تو دھڑکا کاہے؟<br />
اور جب آنے والے نامعلوم کا نقصان نہیں معلوم تو پھر یہ حساب کتاب کاہے؟<br />
<br />
میرا وجدان مجھ سے کہتا ہے کہ کچھ خوف ماضی سے بھی تعلق رکھتے ہیں ماضی والے قضیے کو بھی چھیڑیں گے لیکن غصے کے بعد چھیڑیں گے بس ایک جملہ اپنے ہی منہ پر مارنے کی جسارت کرتا ہوں "جو گزر گیا اگر اس کے گزرنے کے باوجود نظام تنفس قائم ہے تو بھائی گزرنے والے نے تجھے نقصان کیا دیا؟"<br />
اس سے خوف کیسا؟<br />
وہ جتنا بھی بڑا جتنا بھی طویل جتنا بھی تھکا دینے والا سلسلہ ہو مرحلہ ہو لمحہ یو وہ گزرنے کے باوجود گر ذہن کام کر رہا ہے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دوبارہ پلٹ کے بھی آتا ہے تو مجھ میں اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے تو پھر خوف کیسا؟<br />
<br />
غصہ کیا ہوتا ہے؟<br />
ایک جزباتی عمل، کچھ جزباتی ساعتیں؟ ان کو طاری کیا تو کیا کیا؟<br />
وقتی لمحات میں جی کر کیا کرنا ہے<br />
مانتا ہوں غلط پہ غصہ آنا نارمل ہے لیکن اس غصے میں زندہ رہنا قطعی نارمل نہیں اس لئے پائین غصے گنجائش تو آپکی بھی نہیں بنتی <br />
<br />
اب آتے ہیں شرمندگی کی جانب یہ شرمندگی کا منہ زور اتھرا گھوڑا سرپٹ سرپٹ سرپٹ دوڑ رہا ہے اس کی لگام کدھر ہے؟ پھڑ لی!<br />
کس بات پہ شرمندگی گزرے کل پہ یا گزرے لمحے ہر؟<br />
اگر غلط کیا بھی تھا تو معافی و استغفار کی گنجائش ہے تو کوئی شرمندگی کیوں پالے؟<br />
چل میرے گھوڑے تو بھی ریس ہوجا!<br />
<br />
غصہ گیا خوف گیا شرمندگی گئ کامیابی کا پہلا مرحلہ طے ہوا۔<br />
<br />
کیوں جی ناگ جی؟ مزہ آ رہا ہے؟<br />
تمھیں کیوں آئے گا؟ مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں۔<br />
<br />
دوسرے مرحلے کو لاؤں؟<br />
اجازت ہے؟<br />
تم سے اجازت کیوں مانگ رہا ہوں مطمئن تو میں خود کو کر رہا ہوں۔<br />
<br />
دوسرے مرحلے پر جسمانی صحت کو جگہ دیتا ہوں۔ ذہنی سکون مل گیا اب جسم کو بھی چست و توانا ہونا چاہئے کیونکہ جسم اگر چست و توانا نہیں ہوگا تو زندگی سے لطف اندوز ہونا کیسے ممکن ہے؟<br />
چلو میاں ڈنڈ پیلو قدرت کی عطا کردہ مزے دار غذاؤوں سے لطف اندوز ہو۔<br />
<br />
تیسرے مرحلے میں میرا کہنا یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی عمدہ مقاصد و خیالات موجود ہوں۔<br />
کیا آپ بغیر واضح خیال کے کسی مقصد کا تعین کر سکتے ہیں؟<br />
میرے خیال میں میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اور آپ کامیاب ہو سکیں، مقصدیت ضروری ہے چھوٹی یا بڑی بحث یہ نہیں ہے مقصدیت ضروری ہے آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں؟ اور آپکے خیال میں آپکے اندر وہ قابلیت موجود ہے جو آپکو آپ کے مقصد کی سمت میں دھکیل سکیں تو آپ کو کامیاب ہوتے ہوئے کون روک سکتا ہے؟<br />
واضح مقصد اور واضح خیالات کے بغیر کامیابی صرف ایک خواب ہو سکتی ہے تعبیر نہیں۔<br />
<br />
چوتھا مرحلہ سن! قابلیت<br />
۔قابلیت ہے چوتھا مرحلہ<br />
اگر مقصد کو پانے کے قابل نہیں ہو تو مقصد کو پانے کے قابل بنو۔<br />
قابلیت کسی کے باپ کی میراث نہیں قابلیت پر تیرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا قابلیت کے در کھولتے چلے جاو کہیں علم کی ضرورت پڑے علم لو کہیں ہنر کی ضرورت پڑے ہنر لو کہیں صبر کی ضرورت پڑے صبر لو کہیں قدر کی ضرورت پڑے قدر کرو، کیونکہ قابلیت اس زینے کا نام ہے جس پر خیال و مقصد کے گھوڑے پر سوار ہو کر کامیابی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔<br />
ہاں!!!<br />
گھوڑے پر بیٹھنے کے لئے جسمانی صحتمند ہونا ضروری ہے خیالات کی دھندلاہٹ پر قابو پانے کے لئےذہنی آسودگی ضروری ہے۔<br />
<br />
یوں میں یہ چار مرحلے سمیٹ کر سوالوں کے اے ناگ کامیابی کی چھوٹی تعریف تیرے منہ پر مارتا ہوں اب زرا پھن کو نیچے کر لے کیونکہ میں اس پوری تحریر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے خود پر یقین ہے اور اگر مجھے خود پر یقین ہے تو تیری پھنکاریں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں میں خود کو خوف غصے اور شرمندگی سے آزاد محسوس کرتا ہوں میرا ذہن قید میں نہیں رہا۔<br />
<br />
تو اے سوالوں کے ھجوم تیرا یہ باہر نکلتا پھن میرے لئے فن تو ہو سکتا ہے میری کامیابی کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔<br />
<h4 style="text-align: left;">
<br /><span style="font-weight: normal;">چل کٹ لے اور سن جاتے جاتے ایک تحفہ تو لیتے جا ایک کسی ہوئی پپی اور ایک منا بھائی والی جھپی۔</span></h4>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-50482872814062516062016-11-27T12:42:00.000-08:002016-11-27T12:42:00.369-08:00جاگیردارانہ سوچ اور ہم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">سنتے آئے ہیں کہ جب سقراط زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا "اے استاد! بتا ہم تیری تجہیز و تکفین کن رسموں کے مطابق ادا کریں؟" "میری تجہیز و تکفین؟ " سقراط ہنسا اور پھر سنجیدہ ہو کر کہنے لگا، "کریٹو! میں نے تمام لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ الفاظ کو انکے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو، لگتا ہے تمھیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے یاد رکھو الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔" </span></div>
<br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: justify;">
بدقسمتی سے ہماری زبان میں کچھ الفاظ اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہونے کے بجائے غلط معنوں میں استعمال کئے جاتے ہیں جیسے لفظ "کمین" کو ہی لے لیجئے کمین ہمارے معاشرے میں گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حقارت اور زلالت کا استعارہ یہ لفظ بعض اوقات گالی کی صورت بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ کمینہ کمینگی جیسے الفاظ کسی انسان کی خصلت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ لفظ کمین کا ماخز <b>کمی</b> ہے جس کا مطلب محنت کرنے والا ہوتا ہے۔ اب اس کو جاگیردارانہ سوچ کے اثرات کہئے یا سرمایہ دارانہ توسیع پسندی کا ہتھیار، ہم نے محنت کرنے والے کو محنت نہ کرنے والوں سے ممتاز کرنے کے بجائے اس کو حقیر و ادنی بنا دیا۔</div>
</span><br />
<br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: justify;">
الفاظ کے غلط استعمال کے گناہ میں ہم نے خود کو خوساختہ پیمانوں مقید کر لیا اور گناہ در گناہ در گناہ کے مستقل مرتکب ہوئے جا رہے ہیں۔</div>
<div style="text-align: justify;">
ہماری زبان میں لفظ <b>"شریف"</b> کا استعمال کردار کی ایک خوبی اور وصف ہوتا ہے یعنی جب کہا جائے کہ فلاں شخص شریف ہے تو مطلب یوں نکلتا ہے کہ اس شخص کا کردار انتہائ نیک اور پاکباز ہے لیکن اگر اس لفظ کے ماخز کو دیکھا جائے تو پتہ چلے کہ لفظ شریف <b>شرف</b> سے نکلا ہے جس کی جمع اشراف ہوا کرتی ہے۔ یہ لفظ عموما امراء، والیوں اور شہزادوں کے لئے استعمال ہوتا تھا اور فی زمانہ شریف اور اشراف وہ لوگ ہوئے جو امیر دولت مند یا صاحب اقتدار ہوئے۔ </div>
<div style="text-align: justify;">
تو طے یہ پایا کہ شرافت وہ خوبی اور وصف ہے جس کے حامل معاشرے کا حکمران طبقہ یا جاگیردار ٹہرے اور آگے چلتے ہیں۔ لفظ آتا ہے<b> "معزز"</b> جس کا ماخز ہے <b>عز</b> جس کے معنی طاقت و قوت ہیں یہ لفظ بھی معاشرے میں با اثر اور صاحب اقتدار طبقے کے ایک وصف کو ظاہر کرتا ہے یعنی شریف و معزز وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار و قوت ہوں جبکہ کمی اور کمین وہ ٹہرے جو صاحب اقتدار اور صاحب قوت افراد کی یا طبقے کی قوت و قتدار میں اضافے کے لئے دن رات اپنا خون پسینہ ایک کریں۔ </div>
</span><br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">ستم بالائے ستم دیکھئے کہ معاشرے میں محنت کرنے والے افراد کو وفاداری، اطاعت گزاری، جانثاری اور ایثار کی قدروں سے بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر آقا کی اطاعت گزاری اور وفا شعاری میں کوئ کمی آ گئ تو وہ نمک حرامی تصور کی جائے گی اور اگر آقا کی قوت و اختیار میں اضافے کے لئے جانثاری کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ نمک حلالی </span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">تصور کی جائے گی۔</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">کیا آپ کو نہیں لگتا کہ معاشرتی نظام میں مساوات کی دھجیاں اڑانے میں ان الفاظ کے استعمال نے کلیدی کردار ادا کیا ہے؟</span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</span><br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آقا، مالک، غلام جیسے الفاظ صرف اور صرف استحصال کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں اگر ہم ان الفاظ کے غلط استعمال جھونجھل سے خود کو آزاد کرا لیں تو ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کافی حد تک دور ہو سکتی ہے۔</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"> سقراط نے صحیح کہا کہ الفاظ کا غلط استعمال گناہ ہے اور ہم اس گناہ عظیم میں مبتلا ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">ہم میں اکثریت نےذہنی طور پر ناصرف اس طبقاتی تقسیم کو قبول کیا ہوا ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس اقلیتی طبقے کا رکن بن جائے اور یہی اس کی زندگی کی معراج ہوتی ہے۔</span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</span><br />
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">عام سے خاص تک، ادنی سے اعلی تک، اسفل سے افضل تک، کمتر سے برتر تک، رزیل سے شریف تک، حقیر سے </span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">معزز تک، غریب سے امیر تک اور مجہول سے خاندانی تک پہنچنا ہماری زندگی کی طبقاتی جدو جہد ہمارا مقصد حیات بن </span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">جاتا ہے۔ </span></div>
<div style="text-align: justify;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<div style="text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">کہیں پڑھا تھا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ</span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
<b>میں ابتدا میں روئ دھنے والا تھاپھر شیخ بن گیا</b></div>
</span><span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: center;">
<b>اگر اناج سستا ہو گیا تو میں اس سال سید بن جاونگا۔</b></div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
ذات پات، نسل، خاندان ،شریف خون اور خون کی پاکیزگی جیسے الفاظ کو فروغ دینے میں ہمارے ادب کا بھی بہت اہم کردار ہے </div>
</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><br /></span></div>
<br />
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم کب تک اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟ ہم۔کیونکر اس گناہ کا کفارہ ادا کریں گے؟</span></div>
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;"><div style="text-align: center;">
<br /></div>
</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="background-color: white; color: #292f33; font-family: Arial, sans-serif; text-align: right; white-space: pre-wrap;">میں اکثر سوچتا ہوں اور سوچتا ہی رہ جاتا ہوں</span></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-83933913396468006562016-05-22T12:33:00.001-07:002016-05-22T12:37:36.555-07:00یہ جمود زندگی- یہ بقا کے مرحلے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک عرصے سے سوچ منجمد اور قلم ساکت ہے، غم
روزگار نے کچھ ایسا فکری جمود طاری کردیا کہ جیسے فکر کے تمام سوتے خشک ہو گئے ہوں،
میں خود پر غور کرتا ہوں تو جھنجھلا جاتا ہوں کہ یہ فکری بانجھ پن کیونکر وجود میں
آیا۔ ذہن کے الجھاو کو دور کرنے کے واسطے آج قلم کی پوری طاقت استعمال کرنے کی
کوشش کر رہا ہوں کہ اس گھمبیر</span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">صورت حل کا کوئی حل نکال سکوں ورنہ میرا معنوی وجود
اختتام کے قریب نظر آرہا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مادیت کے الجھاو نے روح کو سن کر دیا ہے، آج قلم
کو زنگ آلود ہوئے مدت گزر گئی، قلم کو زندگی آلود کرنے کے </span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">واسطے آج اسے دوبارہ نئی
و تازہ قوت دینی پڑے گی، گرد و پیش کو دوبارہ محسوس کرکے ان احساسات کو اتنی حدت
فراہم کرنی پڑے گی کہ روح پر موجود تمام برف پگھل جائے ، اور زندگی کی یخ بستگتی
میں کچھ تو حرارت پیدا ہو ورنہ اس جینے کے ہاتھوں ہم تو مر چلے۔ انسان کے احساسات
کی کانات گر اک بار اس سے چھن جائے تو وہ ایسا جمود یافتہ بت بن جاتا ہے جسے گر و
پیش کی کوئی خبر نہیں رہتی، کون ، کہاں، کس حال میں ہے اسے فرق نہیں پڑتا، وہ خود
کہاں، کس حال میں ہے اسے تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، وہ بے حس و حرکت ہوش و خرد
سے انجان رہنے لگتا ہے، یہ کیفیت زندگی کی نہیں موت کی کیفیت ہوتی ہے، بقا نہیں
فنا کی، ہستی کی نہیں عدم کی کیفیت ہوتی ہے اس واسطے زندہ انسان کو اسے قبولنے میں
ہمیشہ تردد ہوتا ہے وہ کسی لمحے چونک پڑتا ہے، دھیرے دھیرے مشاہدہ شروع کر دیتا
ہے۔ یہ مشاہدہ احساسات میں تحرک کا باعث بنتا ہے ، تحرک زندگی کی گرمی کو جنم دیتا
ہے اور جمود کا بت توڑ دیتا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج ایسا لگتا ہے جیسے میرے جمود کی یخ بستہ
چٹانیں بھی پگھل رہی ہیں، سرکش ہوائیں طوفان کی آمد کا پتا دے رہی ہیں، زندگی کا
تعطل دور ہونے کو ہے، ہاں میں سوچ رہا ہوں، ہاں میرا قلم لکھ رہا ہے، ہاں زندگی
برف کی سلوں سے گرم پانیوں کی جانب سرکنے لگی ہے، ہاں میں بے ربطگی سے جانب ربط
چلنے کو ہوں۔ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">لکھنے والا جب معاشرے کی گھٹن آلود فضا میں جمود
کا شکار ہوتا ہے تو دنیا اندھیر ہوجاتی ہے، ایسا اندھیرا کہ جس کے بھیانک گوشوں
میں انسان سسکتا نظر آئے اور انسانیت بے حال، آج ایسا ہی کوئی پر آشوب دور ہے،
جہاں شر و فتن اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ لکھاریوں کو معتوب، حق پرستوں کو مجزوب،
اور فکری کاوشوں کو رقص ابلیس سے زیر کرنے پر تلا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج آدمیت منہ چھپائے شرم و حیا کا ماتم کر رہی
ہے تو انسان خوب و بد، خیر و شر اور عدل و ظلم کے دوراہے پر ششدر</span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> کھڑا ہے کہ جائے
تو جائے کہاں؟ مستقبل بے یقینی کے ایک دیو کی صورت اسے خوفزدہ و ہراساں کر رہا ہے،
آج انسان کو ایسے حق شناس کی تلاش ہے جو زبان، قلم اور تلوار سے حق پھیلائے، صداقت
کا بول بالا کردے اور باطل کی گھمبیر و سیاۃ منحوس گھٹایں دور کر کے آفتاب صدق کا
جلوہ دکھا دے، کوی رقص ابلیس نہ رہے باقی ، انسان سکھ چین کا سانس لیتے، ارتقاء کے
سفر کو جاری رکھتے منزل کمال کی جانب بڑھے، کہ وجود بشر کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ
کمال کے اس نقطے کی جانب بڑھے جو اسکے خالق نے اسکے لئے معین کیا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ
لباس عظمت وہ کیسے پہن سکتا ہے؟ کہاں سے لائے وہ وسائل جو اسکے لئے وہ لباس مہیا
کریں؟ کب ایسے ممکن ہوگا؟ رقص ابلیس کب ختم ہوگا؟ آفتاب صدق کب طلوع ہوگا کہ آج وہ
جو ظلم و استبداد کی آہنی سلاخوں کے پیچھے اس کے منتظر ہیں عالمی استکبار کے روز
افزوں ظلم سے نجات پا جائیں؟ <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہاں وہ صبح آرہی ہے، اسکی نسیم دلپزیر اپنی
مترنم موسیقی سے نوید آمد سحرنو دے چکی ہے،وہ جو پندرہ شعبان المعظم کے دن جلوہ
فگن ہوا ہولے ہولے، دھیرے دھیرے تمام آفاق کو اپنی آمد کی خبر سنا رہا ہے، قلم کا
سکوت و جمود شاید اسی لئے ٹوٹا ہے کہ اب سکوت مرگ سے نجات کا وقت آچکا ہے اور حیات
نو کی امید مل چکی ہے، آج بشریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسرور ہو کیونکہ یہ عید
حیات نو ہے، ایک نئے عہد کا آغاز ہے تاریخ انسانی کے ہر دور میں بشریت نے اسکا انتظار
کیا ہے، انتظار یوں تو بدتر از مرگ ہے، لیکن انسانیت کا یہ کمال انتظار ہے جو
عبادت کا درجہ پاگیا۔ اسی لئے آج انتظار گاہ میں تھکی ماندہ انسانیت دیدہ دل فرش
راہ کئے بیٹھی ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پندرہ شعبان المعظم انقلاب مہدی عجل اللہ فرجہ
کے سلسلے میں ایک دعوت فکر ہے، یہ انسانی فکر و عمل سے جمود و</span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> تعطل کے خاتمے کا دن
ہے جب عقل انسانی کمال کے نقطے پر پہنچ جائے گی اور انسانیت کمال حقیقی کوپا لے
گی۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سنو سرد راتوں کی تایکیوں میں چھپ چھپ رونے
والوں <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مصاب و آلام کی چکیوں میں پسنے والوں<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ظلم و استبداد کا شکار ہونے والوں <o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">دن کی روشنی میں استکبار کے منحوس سائے کے سیاہ
اندھیروں میں سسکنے والوں<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج اپنی مظلومیت کے خاتمے کی نوید سن لو کہ آج
کی نسیم صبح تمھارے درد کے مداوا کا پیغام لائی ہے۔ آفات کی سیاہ دبیز چادر اوڑھے
یہ شب دیجور ختم ہونے کو ہے اور وہ صبح طلوع ہونے کو ہے جسکا تمہیں صدیوں سے
انتظار تھا۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آو سب مل کر اس صبح جانفزا کے استقبال کی تیاری
کریں، کیونکہ اسکا استقبال در حقیقت صاحب لیلۃ القدر کو خوش آمدید کہنا ہے<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><br /></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آو خود سازی کے تمام دریچے کھول کر مشام جان و
ایمان کو تازہ کریں تاکہ پندرہ شعبان المعظم کے اہل ثابت ہوں۔<o:p></o:p></span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آو اس نعمت عظمی پر خدائے بزرگ و برتر کے آگے
سجدہ ریز ہو کر سجدہ شکر و حمد بجا لائیں<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "arial" , "sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ <o:p></o:p></span></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-51162900371227817152016-01-15T12:06:00.006-08:002016-01-15T12:06:57.181-08:00احساس برتری کے گمان میں مبتلا کچھ سگ پرستوں کے نام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Arial","sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میں جو ہوں وہ ہوں، میں گاندھی نہیں کہ
عدم برداشت پر مبنی ایک فضول سوچ کا پیروکار بنوں، میرے احساسات مجروح ہونگے تو جواب
دونگا</span></div>
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میرے خیالات کی ترجمانی کے واسطے کوئی اور نہیں
صرف میں ہی ہوں، میرا نطریہ سیدھا اور سادہ ہے، ظلم کسی بھی صورت سامنے آئے روکو،
میں تماشہ دیکھ کر مصلح بننے پر ایمان نہیں رکھتا، جب بات گریبانوں اور پگڑیوں تک
آجائے تو میں ہرگز ریت میں منہ نہیں دے سکتا، تمہیں میرے نظریات سے اختلاف تو ہو
سکتا ہے، لیکن برتری کا احساس رکھنے کی اجازت نہیں، اور میں کسی صورت یہ گوارہ
نہیں کر سکتا کہ شعبدے باز نما سرکس کے بندر جو اپنے حرام الدہر نطریاتی ماں باپ
کے بد بو دار اور زہریلے پراپیگنڈے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کو
پنپنے دوں، تمہیں کیا لگتا ہے ہم پالیسی نہیں سمجھتے؟ کچھ لوگوں کا مشن ہے اپنی
بدبو دار سوچ مسلط کرنا جو وہ کرتے آئے اور انکے آگے ہو تم جو مزاحمت کی صورت میں
زاتیات اور واہیات کی بحث میں الجھا کر مذاحم کو پسپا کرنے پر تل جاتے ہو، یاد
رکھو تمھاری اس ذہنیت کو جاننے کے بعد ہی میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سوچ و فکر کی جنگ میں لڑنا
دونوں محاذوں پر پڑے گا، پراپیگنڈہ کسی بھی محاذ پر ہو جواب ہر طرف سے دینا پڑے
گا، جیسا سوال ویسا جواب، کم از کم مجھ سے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اسلاف کی
کارکردگی کے نام پر بغض اور تبرے سے بھرے بغض کو علیحدہ علیحدہ دیکھوں، میرے لئے
دونوں ایک ہی ہیں، امیر شام کے دور میں منبروں سے تبرا کا معیار ہرگز وہ نہیں ہوتا
تھا جو گلی کوچوں اور بازاروں میں ہوتا تھا، مقصدیت دونوں کی ایک ہی ہوتی تھی، اسی
طرح آج بھی تمھاری ہزیان گوئی ہو، یا تاریخی سرقہ مقصدیت ایک ہی ہے، اپنے اندر کے
احساس برتری کو تقویت دینا، میری ذاتی رائے کے مطابق تاریخ و ادب کے نام پر تم نے
جتنے افسانے تراشے انکا جواب دینے کو بہت ہیں، چپ بیٹھنا انکی مجبوری بنا دیا تھا
تم نے ایک قسم کی تہزیب سے لیس سپاہیوں کے
آگے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بات کرتا تو یہ تہزیب کے ستائے اپنی علمیت جو صرف
جاٹوں کی زبان سے لیس ہے سے اسکو اتنی پیچیدگیوں میں الجھا دیتے کہ وہ بیچارہ اپنی
عزت بچانے میں ہی بہتری سمجھتا، شب گزشتہ کا سبق تمھارے لئے یوں ضروری تھا کہ تمھاری
سوچ کو تمھاری سوچ سے ہی مارا جاوے ، تمھارا ہتھیار ایک دفعہ تم پر اٹھا کر دیکھا
جاوے، پگڑی اچھالنا کیا ہوتا ہے یہ تم کو بھی سمجھایا جاوے اور انکو بھی جو خوف کو
خود پر طاری رکھتے ہیں یا اسمارٹنیس کے چکر میں چھوٹ دیتے ہیں۔ میں نے کہا میں
گاندھی نہیں، نہ ہی سر سید، میں مقلد ہوں ان جوانوں کا جنہوں نے کامل آذادی کو
اپنا نصب العین بنایا اور مارے گئے، میرے بہت سے احباب اور اساتذہ کو میری زبان سے
کل تکلیف پہنچی، ممکن ہے طریقہ کار سے اختلاف ہو لیکن مجھے اس پر صرف یہ کہنا ہے
کہ گلی کے کتے اور محلے کے غنڈے دونوں کو اگنور نہیں کیا جاتا، گلی کے کتے کو کبھی
پتھر بھی مارنے پڑتے ہیں، اور محلے کے غنڈے کو کبھی سبق بھی سکھانا پڑتا ہے، احساس
برتری کے مارے چند عصبیت پسندوں کو اوقات دکھلانا مقصود تھا اور انکی مجبوری ہے کہ
وہ ایک ہی زبان سمجھتے ہیں، تاریخ گواہ ہے جس نے انکو شٹ اپ کال دی اس سے کبھی
نہیں الجھے چاہے وہ شمالی جانب سے آئے حملہ آور ہوں یا جنوب سے<o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میری جنگ سوچ سے ہے جس روپ میں آئے گی اس روپ
میں مقابلہ کروں گا، پھر واضح کردوں کسی قوم یا زبان سے نہیں ایک سوچ سے جنگ ہے جو
جاری رہے گی<o:p></o:p></span></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-60433620786550665202015-03-25T08:01:00.001-07:002015-03-25T08:01:45.164-07:00 کیونکہ تمھاری زبان، عقل اور نیت سب ہی گندی ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
انگریز چلے گئے لیکن اپنے پیچھے انھیں چھوڑ گئے جنھہوں نے نہ تو تحریک پاکستان میں حصہ لیا نہ ہی تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کو سپورٹ کیا، تاریخ پڑھ لیجئے موجودہ پاکستان کے کس حصے نے مسلم لیگ کے خلاف ووٹ ڈالے تھے 1946 میں ، ساتھ ہی ان کالے انگریزوں میں اپنا <b>"تقسیم کرو اور حکومت کرو"</b> والا فارمولہ چھوڑ گئے جسے ان کالے انگریزوں نے بخوبی استعمال کیا اور پاکستان میں موجود تقریبا تمام قومیتوں کا خوب استحصال کیا</div>
<div style="text-align: right;">
جس کی گواہ پاکستان کی تاریخ ہے۔ خیر بات کرتے ہیں سیدھا کراچی کی، نجانے آنکھ کا کون سا اینگل ہے جس سے کراچی اور کراچی والوں کو دیکھا جاتا رہا ہے، آج لوگ پھبتی کستے ہیں کہ یہ "مہاجر" کیا ہوتا ہے؟ اردو بولنے والے خود کو مہاجر کیسے کہ سکتے ہیں؟، ایم کیو ایم اور الطاف حسین پاکستانیوں میں لفظ مہاجر کی بنیاد پر تفریق پیدا کر رہے ہیں، ان عقل کے اندھوں نے یا تو تاریخ نہیں پڑھی یا پھر جان بوجھ کر اپنے بغض کو عیاں کرنے کے واسطے اس سے نظر ہٹا لیتے ہیں،</div>
<br />
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آئیے 1965 میں چلتے ہیں جب فوجی صدر کی فتح کے جشن میں صرف اردو بولنے والی آبادیوں کو چھلینی کیا گیا، کیا اس وقت ایم کیو ایم تھی؟ 1972 میں چلیں جب سندھی زبان کا بل پاس ہونے پر ایک دفعہ پھر اردو بولنے والی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا، کیا اس وقت بھی ایم کیو ایم تھی؟ کیا اس وقت اردو بولنے والوں کو مہاجر کہ کر انکی آبادیوں کو تاراج نہیں کیا گیا؟</div>
<div style="text-align: right;">
آئیے 1985 کا سفر کریں جب ایک بس حادثے میں طالبہ کی موت کے بعد اردو جو فسادات پھوٹے ان میں بھی ٹارگیٹ اردو بولنے والوں کو کیا گیا اور مہاجر اس وقت بھی کہا گیا، یاد رہے کہ اس وقت حالات ایسے خراب ہوئے تھے کہ فوج کو کراچی میں کرفیو لگانا پڑا، اب پھر وہی سوال کیا اس وقت بھی ایم کیو ایم تھی؟ کیا مہاجر کا نعرہ ان دنوں بھی ایم کیو ایم نے </div>
<div style="text-align: right;">
بلند کیا؟</div>
<br />
<div style="text-align: center;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>جب آپ ایک مخصوص آبادی کو ایک مخصوص نام کے ساتھ نشانہ بناو تو اسوقت تفریق نہیں ہاں جب وہ لوگ آپ کا ہی دیا نام قبول کر لیں تو تفریق شروع، کمال کی نگاہ ہے آپکی</b>۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
شرم آنی چاہئے انکو جو ایم کیو ایم کا سیاسی نظریہ جانے بغیر صرف اپنے اندر کا زہر باہر نکالنے کی خاطر الطاف حسین کی شکل و صورت یا پھر انکے انداز خطابت کا مزاق اڑاتے ہوئے ایم کیو ایم کی پوری سیاسی جدو جہد سے نظر ہٹا لیتے ہیں، کالے انگریز تنقید کریں سیاسی بنیادوں پر، سیاسی فلسفہ پر، سیاسی عمل پر قبول ہوگا، ذاتیات پر حملہ کرکے آپ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کو بس الطاف فوبیا اور بغض کراچی ہے، قصور اپکا بھی نہیں آپکو جو دکھایا گیا اور جو سنایا گیا اس پر آپ ایمان لے آئے بس تصدیق نہیں کی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
چلیں مجھے ایک سیاسی لیڈر کا نام بتا دیں جس کے پاس ملک کی ایک اکثریت کا ووٹ ہو اور وہ خود کبھی بھی کسی سیٹ یا عہدے کا امیدوار نا بنا ہو، ڈھوند لیں نطر الطاف حسین پر ہی ٹکے گی</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مجھے ایک سیاسی پارٹی کا نام بتا دیں جس نے اسمبلیوں میں اپنے کارکنان کو بھیجا ہو سرمایہ کی بنیاد پر ٹکٹ فروخت نہ کی ہو، ڈھونڈ لیں نظر الطاف حسین پر ہی ٹکے گی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
مجھے ایک سیاسی پارٹی کا نام بتا دیں جس نے بنگلہ دیش کے محصورین کا مسئلہ مستقل اٹھا رکھا ہو کہ وہ جو سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستانی رہنے کو ترجیح دیئے رہے انکو پاکستان میں اباد کیا جائے، نظر دورا لیں صرف الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہی دکھے گی۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
ایم کیو ایم پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ جی کراچی میں بھتہ لیتے ہیں یہ ایم کیو ایم والے، اول تو ایک بات صاف کرلیں آپ کے فرشتے یعنی رینجرز ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ بھتے کی کاروائیوں میں کالعدم تنظیمیں مصروف ہین لیکن بھلا ہو کالے انگریزوں کے ان کالے گماشتوں کا جو صحافی کے روپ میں زہر پھیلانے میں مشغول رہے ہیں کہ وہ ایسی خبریں اپنی کالی انگریز غلام قوم تک پہنچنے ہی نہیں دیتے اگر پہنچ بھی جائیں تو اخبار میں اندر کے صفحات اور ٹی وی پر نان پرائم تائم کی خبروں کا حصہ بنا دیتے ہیں، اب بات کریں آپ کے مطابق چلیں مان لیا سارا بھتا ایم کیو ایم لیتی ہے جس سے ملک کی معیشت کو نقصان ہوتا ہے کتنا ہوتا ہے آئیے حساب لگاتے ہیں</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
کالے بجٹ کے مطابق کراچی میں 20 ملین کا بھتہ لیا جاتا ہے اور رینجرز کے مطابق 10 ملین کا یہ تو ہوگیا آپ کے مطابق ایم کیو ایم کا ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے میں حصہ اب آئیۓ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے دیگر عوامل دیکھتے ہیں اور سیدھا ان عوامل کو دیکھتے ہیں جو ہمیشہ ایم کیو ایم کے خلاف بات کرتے ہیں </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
لاہور ہائیکورٹ کے مطابق ایک ریٹائرڈ ائر مارشل نے 40 پرانے میراج جنگجوؤں کی خریداری میں رشوت کے طور پر 180 ملین وصول کئے تھے</div>
<div style="text-align: right;">
سوال 20 ملین زیادہ یا 180 ملین؟</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آگے چلتے ہیں </div>
<div style="text-align: right;">
فوج کیلئے خریدی گئی جیپز کے سودے میں 510 ملین کا گھپلا کیا گیا سینئر فوجی افسران کی جانب سے، یہ میں نہیں کہ رہا آپکا قومی احتساب بیورو کہ رہا ہے</div>
<div style="text-align: right;">
بتائیے 20 ملین زیادہ یا پھر 510 ملین؟</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آگے چلیں </div>
<div style="text-align: right;">
ایک سابق فوجی حکومت نے کھاد فروختکا معاہدہ کیا7 بلین میں اور اس کے عوض 2 بلین کمیشن وصول کیا</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
بتائیے 20 ملین زیادہ یا پھر 2 بلین؟</div>
<div style="text-align: right;">
.یہ ہیں فرشتے ، یہ معیشت کو نقصان پہنچانے کا حق رکھتے ہیں کوئی اور پہنچائے تو ملک دشمن رسما یہ بھی جان لیجئے کہ پاکستانی فوج کا پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں سب سے بڑا حصہ ہے. یہ کمرشل بینک، ایئر لائن، سٹیل، سیمنٹ، ٹیلی کام پٹرولیم اور توانائی، تعلیم، کھیلوں، صحت کی دیکھ بھال اور گروسری کی دکانوں اور بیکریوں کی چینز تک چلاتی ہے.</div>
<div style="text-align: right;">
مختصر یہ کہ فوج کی اجارہ داری پاکستان معیشت کے ہر شعبے میں موجود ہے.اسکے برعکس، پیشہ ور سطح پر اس کی کارکردگی صفر ہے. بجائے اس کی کہ یہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرے ، دنیا میں ساتویں سب سے بڑی فوج کے طور پرجانے جانی والی فوج صرف کارگل اور ڈھاکہ کی جنگ شعبوں میں قوم کو شرمندگی ہی دلائی ہے </div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اب فرشتوں کا ذکر چھوڑ کر کالے بجٹ کی ہی بات کرتے ہین جس کے مطابق کراچی میں 20 ملین کا بھتہ لیا جاتا ہے اسی رپورٹ میں کچھ اور انکشاف بھی ہیں </div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: left;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZ665ldhAVXzuxSexUKhjAtDJtaqpSOFLOO57imNS52bJIs3mzkKfawe6C7f1cklTc600fRXaui5uin925E87Hzbkg8AImW6iMB2_9HJ_D9ouudZJVLJJWBH8O7LF1PK2HYK7eT_Ig0Q/s1600/kala+Budget.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZ665ldhAVXzuxSexUKhjAtDJtaqpSOFLOO57imNS52bJIs3mzkKfawe6C7f1cklTc600fRXaui5uin925E87Hzbkg8AImW6iMB2_9HJ_D9ouudZJVLJJWBH8O7LF1PK2HYK7eT_Ig0Q/s1600/kala+Budget.jpg" height="554" width="640" /></a></div>
<br />
<div style="text-align: right;">
اس رپورٹ کے مطابق کراچی کے کالے دھندے میں سب سے بڑا حصہ پولیس مافیا کا ہے جو یقیننا ایم کیو ایم سے تعلق نہیں رکھتی، اسکے خلاف آپریشن کا انتظار رہے گا، دوسرے نمبر پر حصہ ہے قبضہ مافیا کا جس کی اکثریت غیر اردو بولنے والے غیر مقامیوں پر مشتمل ہے، تیسرا برا حصہ ہے جوے کے اڈوں کا جس کے بارے میدیا نے اکثر رپورٹ کیا ہے کہ اس کاروبار میں رینجرز ملوث ہیں، انکے خلاف بھی آپریشن کا انتظار رہے گا، چوتھا بڑا حصہ ہے پانی مافیا کا ایک دفعہ پھر کراچی میں میں ہائیڈرنٹس کا کاروبار آفیشلی پاکستان رینجرز کے پاس ہے انکے خلاف بھی آپریشن کا انتظار رہے گا</div>
<div style="text-align: right;">
باقی تفصیلات آپکے سامنے ہیں </div>
<br />
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
اگر ملکی معیشت کو بچانے کے واسطے کراچی آپریشن ضروری ہے ان سب مافیاوں کے خلاف بھی آپریشن کی ڈیمانڈ کرو </div>
<div style="text-align: right;">
کیونکہ بھتا تو اس کاروبار کا 3 فیصد بھی نہیں</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
آخر میں لوگ بات کرتے ہیں کہ جی کراچی میں بوری میں بند لعشیں ملتی ہیں تو ذرا تفصیل جان لیجئے بوری میں لعشیں فوجی آپریشن کے دور میں ملی تھیں اور مماثلت جاننی ہو تو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوران جو مسخ شدہ لعشیں ملتی </div>
<div style="text-align: right;">
رہتی ہیں ، ان سے جان لیجئے کہ ایسے لعشیں پھینکے کا رحجان کس کا ہے</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
امید ہے ان چیدہ چہدہ تفصیلات کے بعد کالے انگریز جرمن قوم کی طرح اپنے احساس تفاخر سے باہر آکر پاکستانی بن کر سوچیں گے اگر نہ بھی سوچیں تو فرق کیا پڑے گا؟ تاریخ شاہد ہے تم نے جب بھی کسی لسانی اکائی کو دبانے کی کوشش کی منہ کی ہی کھائی ہے اور کھاتے رہو گے کیونکہ تمھاری زبان، عقل اور نیت سب ہی گندی ہیں</div>
<div style="text-align: right;">
<b><br /></b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>ہو چکی خاک و خون کی ہولی</b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>اے کراچی آ تجھے گلاب کریں</b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>آگ جس نے لگائی گلشن کو</b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>آو اب اسکا احتساب کریں</b></div>
<div style="text-align: right;">
نوٹ: یہ بھی واضح کردوں کہ نہ تو میں کبھی ایم کیو ایم کا کارکن کا رہا ہوں ، نہ ہی اسکا حصہ ، بلکہ نہت ساری سیاسی پالیسیز پر ایم کیو ایم کا نقاد بھی رہا ہوں لیکن ایک انسان ہونے کی حیثیت سے تعصبی نطر رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنا ضروری ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-26650531176315055302014-08-13T02:11:00.002-07:002014-08-13T02:13:47.175-07:00ایک فیس بک اسٹیٹس اپڈیٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<br />
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<div style="text-align: center;">
<b><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span></b><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;"><b><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> "پاکستان: فوج اور ملاوں کے درمیان"</b><u></u><u></u></span></div>
</div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایک دلچسپ لیکن تکلیف دہ سچائی سامنے آئی جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں موجود ہوگی بس زرا نظر کرنے کی دیر ہے،یہ کتاب پاکستان میں جاری ایک بھیاناک کھیل کو سمجھنے کے لئے اچھا حوالہ ہو سکتی ہے جس کے ذریعے پاکستان کو مفلوج بنایا جاتا رہا ھے اور اگر یہی حالات رہے تو شاید یہی عمل جاری بھی رہے۔ کتاب میں ایک واقعہ درج ہے، شاید سانحہ ہو لیکن ہمارے احساسات اسے واقعہ ہی سمجھ لیں تو بڑی بات ہے،<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">"بنگلہ دیش بننے سے پہلے صدر مملکت پاکستان جناب جنرل یحییٰ خان ناراض شیخ مجیب سے آخری دفعہ ملے تو مصنف لکھتا ہے،<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">" جب جنرل یحییٰ نے عوامی لیگ کے رہنماوں کا استقبال کیا تو انہوں نے ہاتھ میں وہسکی کا ایک بڑا گلاس تھام رکھا تھا- انہوں نے شیخ مجیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا –" اپنے لڑکوں سے کہہ دو انہیں فوج کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم سب کو چاہیئے کہ اسلام کی شان و شوکت اور پاکستان کی سالمیت کے لئے مل کر کام کریں"<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">دیکھنے اور سننے والے ششدر رہ گئے کہ ہاتھ میں وہسکی کا گلاس تھام کر خدمت اسلام کی ترغیب دی جا رہی تھی، حالانکہ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے"۔<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">میں چاہوں گا کہ اس واقعے کے دیگر پہلووں کے ساتھ اس پہلو پر بھی نظر کی جائے کہ پاکستان کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں نفاذ اسلام کی زیادہ تر بات ان ہی لوگوں نے کی جو کھلم کھلا شعائر اسلام کا مزاق اراتے رہے، اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ نطریاتی سرحدوں کے نام پر اسلام کو بلیک میلنگ ٹول بنایا جاتا رہا اور بنایا جا رہا ہے اور ہم میں سے بیشتر افراد اس کا شکار بھی ہوتے رہے، ہو رہے ہیں اور شاید ہوتے رہیں۔ اور اب ہم اس عمل کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ معاشرتی سے لے کر ذاتی زندگی تک ہر جگہ ہمیں جہاں جہاں موقع ملتا ہے ہم اس عمل کا خود بھی حصہ بن جاتے ہیں۔<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">وطن عزیز کے حال کو ہی دیکھ لیجئے جہان آج کل ایک کینیڈا پلٹ دیوانے نے ہا ہا کار مچا رکھی اور حیرت یہ ہے کہ اس کے ساتھ بھی عوام ہے، موصوف کا طریقہ واردات بھی کم و بیش جنرل یحییٰ والا ہے، آج کل کچھ لوگ جو کھل کر "ریٹائر پادری" صاحب کی حمایت نہیں کر سکتے وہ بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کو بھی آزما لیتے ہیں غالبا صادق اور امین کی شرط پر ضد کرنے والے پادری صاحب کے نعرے متاثر کن ہوں لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے حافظے یہ بات بھول گئے کہ صادق اور امین کی شرائط پر پادری صاحب خود اس وقت پورے نہیں اتر پائے تھے جب یہ لاہور ہائی کورٹ سے اقدام قتل کا مقدمہ جھوٹا ہونے کے خوف سے فرار ہو گئے تھے، ہم لوگ کتنے بھولے ہوتے جا رہے ہیں۔<br />اور شاید یہی فلسفہ ہے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی منافقت گھول رہا ہے، یقین نہٰیں آتا تو ذرا ہم سب اپنے اپنے فیس بک جھانک لیتے ہیں ، مجھ سمیت بہت سے افراد کی والز پر ایسی اسٹیٹس اپڈیٹس نظر آئیں گے جو قرآنی آیات ، حدیث، قول امام یا پھر کسی بزرگ دین کے فرامین پر مشتمل ہونگے ، چاہے ہماری ذاتی زندگی میں دین ہو نا ہو جو بھی چیز ہمیں اپنے ذاتی خیال سے ہم آہنگ لگے گی، کہ یہ فرمان میرے موجودہ موقف کی حمایت کرتا ہے ہم لمحات میں اسے شئر کر دیں گے۔<br />پتا نہیں ہم کہاں جا رہے ہیں، پتا نہیں ہم کہاں جائیں گے۔<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">پاکستان میں واقعی انقلاب کی ضرورت ہے، سڑکوں پر نہیں فکر میں<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;">کاش کہ یہ انقلاب آجائے اور ہم جاگ جایئں۔۔۔۔۔۔ کاش<u></u><u></u></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;"><b>علی مسعود<u></u><u></u></b></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: Arial, sans-serif;"><b>13 اگست 2014<u></u><u></u></b></span></div>
<div class="MsoNormal" style="background-color: white; color: #222222; font-family: arial, sans-serif; font-size: 13px;">
<br /></div>
</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-73041069576494035522013-09-30T11:12:00.002-07:002013-09-30T11:33:52.644-07:00امن کی آشا اور بھارتی بھاشا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
سیانے سچ کہتے ہیں بنیا ،بنیا ہوتا ہے نا اس کی عادت بدلتی ہے نا فطرت نہ ہی اس کا بغض مرتا ہے۔<br />
آج کل انڈیا اور پاکستان کے مابین امن کی آشا تلاش کی جا رہی ہے اور آشا ہے کہ پوری نہ ہونے کی قسم کھائے بیٹھی ہے، اور بیٹھنا بنتا بھی ہے کیونکہ آشایئں تب ہی پوری ہوتی ہیں جب نیتیں صاف ہوں اور یہاں تو صاف کیا نیت تک کا نام و نشان ناپید ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ امن کی آشا کے بیچ ایک بھارتی "نمونے" نما "چیز" نے کیا۔<br />
جانے وہ کون سی مجبوریاں ہیں جو اس ڈرامے کو رچانےپر مائل ہیں ، جب وہاں سے بات ہو رہی ہے کہ ہمیں پاکستانیوں کی ضرورت نہیں تو صحیح ہے ان کی بات مان لو حرج کیا ہے؟<br />
پاکستان کی آزادی سے اب تک جو بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے ساتھ کیا ہے وہ تجربہ کافی نہیں؟<br />
کشمیر سے سیاچن تک، اگرتلہ سے بنگلہ دیش تک، پانی سے بلوچستان تک، سمجھوتہ ایکسپریس سے دوستی بس تک بھارتی کیا ثابت کرتے رہے ہیں؟<br />
مگر کیا کریں جی ہم ٹہرے غلام ابن غلام ابن غلام، آقا نے کہا دوستی کرو ہم نے کہا حاضر جناب مگر یہ کہنا بھول گئے کہ جناب والا جس ھاتھ سے ھاتھ ملانا ھے پہلے وہ تو لے آئیں، یہ اکیلا ھاتھ کسی کو مکا تہ مار سکتا ہے مصافحہ کیلئے بنییے کا ماننا ضروری ہے۔<br />
بنئے کو کیا چاہئے پاکستان کی منڈی تک رسائی بس؟<br />
وہ تو ویسے بھی مل رہی ہے اب کیا؟<br />
امن کی آشا کے نام پر مزاق کو اب بند ہونا چاہئیے ، کیونکہ اس امن کی آشا سے امن آئے نہ آئے نفرتیں ضرور بڑھیں گی۔<br />
<br />
<iframe frameborder="0" height="270" src="http://www.dailymotion.com/embed/video/x15awrd" width="480"></iframe><br />
<a href="http://www.dailymotion.com/video/x15awrd_aman-ki-asha-sheikh-rasheed-reply_news" target="_blank">Aman ki asha Sheikh Rasheed Reply</a> <i>by <a href="http://www.dailymotion.com/hotspotpakistan" target="_blank">hotspotpakistan</a></i></div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-90980597420044283582013-04-27T16:34:00.001-07:002013-04-27T16:34:23.323-07:00M.Ahad: Marketing techniques<a href="http://malikmuhammadahad.blogspot.com/2013/04/marketing-techniques.html?spref=bl">M.Ahad: Marketing techniques</a>: A marketing strategy is an overall marketing plan designed to meet the needs and requirements of customers. The plan should be based on ...Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-5210173507186394522013-03-14T05:13:00.004-07:002013-03-14T05:17:27.164-07:00اورنگی پائلٹ پروجیکٹ یتیم ہو گیا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizrp41stGPTQ5wk8BV7t3n7Hrx3sm5KOauZny3wYXg-eksbGF97lpJaD0eptOSScwoPyUFkgpUNt5fNhhJ1m817Zn5IeBAr_0o3ZCSa-_K-O_Q9fLYyjmTav7K4fQeYZzLQObfXLsBHQ/s1600/parveen-rehman-npr-file-photo-opp-670x-3501.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="167" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizrp41stGPTQ5wk8BV7t3n7Hrx3sm5KOauZny3wYXg-eksbGF97lpJaD0eptOSScwoPyUFkgpUNt5fNhhJ1m817Zn5IeBAr_0o3ZCSa-_K-O_Q9fLYyjmTav7K4fQeYZzLQObfXLsBHQ/s320/parveen-rehman-npr-file-photo-opp-670x-3501.jpg" width="320" /></a></div>
<br />
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے میری اصل آشنائی اس وقت ہوئی جب میں کراچی میں موجود تاریخی عمارات پر کچھ ڈاکومینٹریز بنا رہا تھا یہ ۲۰۱۰ کی بات ہے، پروڈکشن کے دوران ریسرچ کیلئے عارف حسن صاحب سے ملاقات ہوئی اور کلفٹن کوٹھاری پڑیڈ سے گفتگو جانے کب اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی جانب مڑ گئی پتہ ہی نہیں لگا، اس موقع پر محترم عارف حسن صاحب نے کچھ کتب بطور تحفہ پیش کیں جن کے زریعہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی جزئیات سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی، جتنا جتنا میں پروجیکٹ پڑھتا رہا اتنا ہی حیرانی میں اضافہ ہوتا رہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کچی آبادیوں کے بارے اتنا سوچے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کچی آبادیوں کے باسیوں کا درد سمجھہ ان کے معیار ذندگی کہ بہتر بنانے پر اس درجہ پلاننگ کرے؟ سمجھ بس یہ آیا کہ کچھ لوگ اس دنیا میں فقط انسانیت کا علم لئے آتے ہیں اور انسانیت کو فروغ دینے کے واسطے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔<br />
<br />
اورنگی پائلٹ پروگرام کا آغاز ۱۹۸۰ میں ہوا جس کا مقصد کچی آبادیوں میں رہنے والے افراد کے معیار زندگی کو بہتر بنانا تھا، لاتعداد منصوبوں سے مزین یہ پروجیکٹ صرف نکاسی آب، پانی کی فراہمی ، کلینکس اور سکولز تک محدود نہیں تھا بلکہ اس پروجیکٹ میں عوام میں احساس زمہ داری اور خود کفالت بھی شامل تھا، جس سے عوام الناس کا نا صرف معیار زندگی بہتر ہوا بلکہ ان میں اجتماعی شعور کو بھی فروغ ملا، مگر نا جانے روشنیوں کے شہر کراچی میں انسانیت کے علمبرداروں کے خلاف کہاں سے درندگی کے پجاری آگئے اور بالآخر درندگی نے ایک اور انسانی زندگی کا خاتمہ کردیا۔<br />
<br />
<br />
<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj1vUfAzxx1WAprv9H7tm_0rP-WGKRZ9ZyqPXXosVBNu0txZIRMr46sNhkXCgw-9Y83ipwQnNxjBAiA6W_BiHDGrqzcP3B1I2nBrZAinZxtKnpSXjnc2uQ4TMPTY8BfQFLdP5wMv9clKw/s1600/Parveen.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="192" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj1vUfAzxx1WAprv9H7tm_0rP-WGKRZ9ZyqPXXosVBNu0txZIRMr46sNhkXCgw-9Y83ipwQnNxjBAiA6W_BiHDGrqzcP3B1I2nBrZAinZxtKnpSXjnc2uQ4TMPTY8BfQFLdP5wMv9clKw/s320/Parveen.jpg" width="320" /></a></div>
<br />
پروین رحمان ایک جلتا دیا تھیں جو کل رات سفاک درندوں نے بجھا دیا لیکن وہ سفاک درندے یہ بھول گئے کہ پروین رحمان ایک شخصیت نہیں ایک سوچ تھیں وہ سوچ جو آج اورنگی پائلٹ پروجیکٹ سے وابستہ ہر شخص کی صورت زندہ ہے ، وہ سوچ جو انسانیت کے علمبرداروں کی صورت تا حیات پائندہ ہے تم اس سوچ کو کیسے مارو گے۔<br />
آج پروین رحمان ہمارے درمیان نہیں لیکن انکا عمل اور افکار ہمارا ھتیار ہیں اور ہم پروین رحمان کے عزم کے فروغ کیلئے اپنی جانیں تک دینے کو تیار ہیں۔ ایک پروین رحمان اگر ہزاروں لوگوں کو زندگی کا پیغام دے سکتی ہے تو سوچو ہزاروں پروین رحمان کتنی زندگیاں بدلیں گی، آج اورنگی پائلٹ پروجیکٹ یتیم تو کردیا لیکن پروجیکٹ قائم ہے اور اب تو اس کی جڑوں میں پروین رحمان کا خون بھی شامل ہے سوچو یہ جڑ کتنی مضبوط ہوگی اور اس کی اٹھان تمھاری درندگی کو کیسے مسمار کرے گی سوچو۔</div>
Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-44613020678588408812012-08-01T07:40:00.000-07:002012-08-01T07:43:47.205-07:00Exploitation in the name of Muslim Killings in Burma,<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
<iframe allowfullscreen='allowfullscreen' webkitallowfullscreen='webkitallowfullscreen' mozallowfullscreen='mozallowfullscreen' width='320' height='266' src='https://www.youtube.com/embed/DhoDgpkNFuE?feature=player_embedded' frameborder='0'></iframe></div>
<div style="text-align: right;">
ہم پاکستانیوں کا المیہ یہی ہے کہ ہم انتہائی جزباتی قوم ہیں ہمیں بس یہ پتا چلنا چاہئے کہ کب کہاں اور کیسے کسی مسلمان پر ظلم ہوا ہےاور پھر ہمارا ردعمل چیک کیجیئے</div>
<div style="text-align: right;">
خبر کی تصدیق وہ کون کرے ہمیں تو بس نعرے لگانے سے مطلب ہی</div>
<div style="text-align: right;">
یہ بتاو کس کے خلاف اور کب لگانے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
گو امریکہ گو سے برما تک یہی کہانی ہے بس جزبات صرف جزبات۔<br />
حالیہ برما میں ہونے والے فسادات کے بعد پاکستان میں کچھ ایسی خبریں آئیں کہ برما میں بدھ مت کے ماننے والوں نے مسلمانوں کو بدھ مت اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ان کا قتل عام شروع کر دیا ہے۔<br />
اور مسلمانوں کے جزبہ ملی، غیرت ملی اور نجانے کون کون سے جزبات کو چیلنج کر کے ابھارا گیا کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں</div>
<div style="text-align: right;">
تصویریں شئر کی گئیں میڈیا کو وہ تصاویر نہ دکھانے پر نامردی اور امریکی شاگردی کے طعنے دئے گئے۔</div>
<div style="text-align: right;">
سبحان اللہ، ہمارا ایمان بھی نا کچھ دوغلوں کے فتووں سے فورا متاثر ہو جاتا ہے ،</div>
<div style="text-align: right;">
کسی نے یہ بتایا کہ برما میں بدھ مت اور مسلمانوں کے درمیان فساد جو چھڑا اس کی اصل وجہ کیا تھی؟</div>
<div style="text-align: right;">
وہ کون تھے جنھوں نے بدھ مت کی ایک راہبہ کے ساتھ اجتمائی زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا؟</div>
<div style="text-align: right;">
ان تین لوگوں کا مزہب کیا تھا؟</div>
<div style="text-align: right;">
زیادتی اور قتل کی اسلام میں سزا کیا ہے؟</div>
<div style="text-align: right;">
کیا ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ قصہ شروع کہاں سے ہوا ، نہیں جناب ہم نے تو سڑکوں پر نعرے لگانے ہیں تو ہم کیوں سوچیں سوچے وہ جس نے ہمارے نعرے سننے ہیں، یسے بھی گھر میں بجلی نہیں ہوتی، ملک میں روزگار نہیں ہوتا، غصہ کہیں تو نکالنا ہوگا، چلو غیر مسلموں کے خلاف نعرے لگا کر نکال لیتے ہیں،</div>
<div style="text-align: right;">
فرسٹریشن بھی کم ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔</div>
<div style="text-align: right;">
ہم نے گناۃ و ثواب کو اتنا سستا کیں سمجھ لیا یہ ایک الگ موضوع ہے۔</div>
<div style="text-align: right;">
بات ہو رہی ہے برما کے حالات پر، ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم تجزیہ کر کے عقلی فیصلے لیتے،</div>
<div style="text-align: right;">
امت کا دباو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں کے بجائے دلائی لامہ پر ڈالتے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو منع کرے ہم اپنوں کو روکتے ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
امت کا دباو بنگلہ دیش کی حکومت پر ڈالتے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کے لئے سرحدیں کھول دے جن کو برما کی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، تاکہ وہ فسادات کی نظر نہ ہو سکیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
لیکن نہیں جناب ہم نے تو صرف جعلی تصویریں دیکھ کر سڑکوں پر نعرے لگانے ہیں،</div>
<div style="text-align: right;">
نفرتوں کو ہوا دینی ہے،</div>
<div style="text-align: right;">
اسلئے ہمارے لئے یہ پرانی تصاویر ہی کافی ہیں۔<br />
ہاں جس طرح میانمار میں بدھ مت کے کچھ شرپسندوں نے بدلے کی خاطر ایک بس میں سے 10 مسلمان اتار کے انہیں شہید کیا ایسا واقعہ اگر کراچی، کوئٹہ یا گلگت میں ہو تو شور نہیں مچنا چاہئے</div>
<div style="text-align: right;">
کیونکہ وہاں آگ لگانے والے غیر مسلم نہیں تھے۔<br />
ملک میں بھوک بھت ہے سو دھوکہ کھاو</div>
<div style="text-align: right;">
اور جیتے جاو</div>
</div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-31402598256803308442012-07-19T12:21:00.000-07:002012-07-19T12:21:39.550-07:00وینا ملک کی استغفار اوراستغفار سے برطرفی,چینل کی ریٹنگ بڑھ گئی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivogYY2-5it1AyfhJuCVpkANcOrN2LDK2iZm9UTDyQCL5_FRz2TP57eLUnp0I_AbCw-LxTg3v7thPb9b2NxRTLly7hts1t7nBm8uK9UmrTdOcL-fOnU57__9zryVmuvL-ORwEbB35lvw/s1600/Veena-Malik1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="213" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEivogYY2-5it1AyfhJuCVpkANcOrN2LDK2iZm9UTDyQCL5_FRz2TP57eLUnp0I_AbCw-LxTg3v7thPb9b2NxRTLly7hts1t7nBm8uK9UmrTdOcL-fOnU57__9zryVmuvL-ORwEbB35lvw/s320/Veena-Malik1.jpg" width="320" /></a></div><div><br />
</div><div><br />
</div>یہ جو ورلڈ ہے نا ورلڈ اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو سیدھے بلے سے کھیلتے ہیں دوسرے وہ جو ترچھے <div><div>بلے سے کھیلتے ہیں</div><div> سیدھے بلا باز کا سٹروک ہمیشہ سمجھ آتا ہے بلکہ اسکا دھکیلا بال نظر بھی آتا ہے، لیکن ترچھے بلے کا سٹروک نہ سمجھ آتا ہے اور اکثر نظر بھی نہیں آتا۔<br />
ہماری قوم کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہئے کہ ہمیں سیست ہو یا صنعت ہر جگہ ترچھے بلے باز ہی نصیب ہوئے، اب حالیہ واقعہ کو ہی لے لیں جس میں مرکزی کردارپاکستان کی مشہور و معروف ہیروئنی<b> وینا ملک</b> نے ادا کیا، فلم کا نام تھا <b>پرومو استغفار</b>، کہانی کا پلاٹ بڑا دلچسپ ہے جس میں ایک نوزائدہ چینل توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک انتہائی حسین و جمیل اور منفی شہرت کی حامل اداکارہ کو لے کر ایک پروگرام کا اعلان کرتا ہے، لیکن چونکہ بلا سیدھا نہیں ہے اسلئے کہانی میں ٹوئسٹ اب آئے گا، ترچھے بلے کا شاٹ دیکھیں کہ پروگرام کی نوعیت مزہبی تھی جبکہ کردار کے مزہب پر غیر مزہبیوں کو بھی اعتراض تھا، ہوا وہی جو ہونا تھا لوگوں نے بھرپور اعتراض کیا اور اداکارا کا کردار اور چینل کا نام ہر شخص کی زبان پر آگیا، ترچھے بلےکا چھکا چیک کریں عوام کے پرزور اصرار پر چینل نے اداکارہ کو پروگرام سے باہر کر دیا ۔ ہا ہا ہا ، کہانی سمجھ آئی باس، استغفار صرف ایک پرومو تھا وینا ملک کے ساتھ کنٹریکت بھی پرومو کا سائن ہوا تھا ،<b> اصل مقصد ہیروئنی کی آڑ میں ہیرو کو مشہور کرنا تھا،</b><br />
اپنا کام پورا بھاڑ میں جائے نورا اب دیکھو ہیرو اور بنو زیرو<br />
ویسے سوچیں وینا کو دیکھ کر کتنے لوگ استغفار کر سکتے تھے خصوصا وہ ایکسپریس والے مفتی صاحب۔<br />
<br />
ۃا ۃا ۃا، ترچھے بلے کا چھکا، اور قوم کی تالیاں</div></div></div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-23187420648350056082012-07-01T02:07:00.001-07:002012-07-01T02:10:17.094-07:00شیعہ ووٹ شیعہ امیدوار کیلئے، سیاسی نعرہ، مزاق یا المیہ؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: right;"><img src="http://www.islamtimes.org/images/docs/000096/n00096064-s.jpg" /> </div><div style="text-align: right;"><b>مینار پاکستان پر پکوڑوں کی دکان پھر سج گئی</b></div><div style="text-align: right;"><b>لسانیت، صوبائیت کے بعد فرقہ ورانہ مداری میدان میں آگئے۔</b></div><div style="text-align: right;"><b>ڈھول بجنے لگے اور عیارون کی عیاری اپنے پورے جوبن کے ساتھ ناچ اٹھی۔</b></div><div style="text-align: right;"><b>قرآن اور سنت کے نام پر وحشی درندے جزباتی بٹیروں کا شکار کھیلنے لگے<br />
ہا ہا ہا</b></div><div style="text-align: right;"><b>اب یہ نعرہ کہ شیعہ ووٹ صرف شیعہ کیلئے</b></div><div style="text-align: right;"><b>سوچا جواب کیا ہو سکتا ہے؟</b></div><div style="text-align: right;"><b>شیعہ ووٹ اگر شیعہ کیلئے تو سنی ووٹ کیا سیاسی مداریوں کیلئے</b></div><div style="text-align: right;"><b>کس کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟</b></div><div style="text-align: right;"><b>فائدہ کس کا نقصان کس کا سوچئے</b></div><div style="text-align: right;"><b>تازہ ترین مردم شماری کے مطابق پاکستان میں شیعوں کی تعداد 17 ملین ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b> جس میں سےووٹ ڈالنے والوں کی تعداد کتنی ہوگی؟<br />
الیکشن کمیشن کی سائٹ پر دیکھ لیں<br />
جس ملک میں 30 فیصد سے زائد رکن پارلیمان بغیر شیعہ ووٹ کے نعرے کے منتخب کئے جاتے ہوں</b></div><div style="text-align: right;"><b>جبکہ شیعوں کی تعداد 10 فیصد بھی نہیں <br />
سوچئے جب آپ شیعہ ووٹ کی تقسیم کی بات کریں گے تو آپ 10 فیصد نشستوں کی بات کرتے ہیں<br />
سودا کون سا سستا ہے کون سا مہنگا<br />
شیعہ بھی عجیب جزباتی ہیں معصومین کی احادیث موجود ہیں کہ قرآن و سنت کے نام پر لوگ تمہیں بے وقوف بنایئں گے</b></div><div style="text-align: right;"><b>دیکھ لیں نام قرآن و سنت کانفرنس نعرہ سیاسی<br />
اور یہ جزباتی پھر بے وقوف بن رہے ہیں</b></div><div style="text-align: right;"><b>جو ان کے خلاف بولے وہ دشمن کا ایجنٹ</b></div><div style="text-align: right;"><b>لگے رہو منا بھائی </b></div><div style="text-align: right;"><b>مگر یہ سوچ لو کہ یہ فرقہ وارانہ تقسیم قوم کو فائدہ پہنچائے گی یا نقصان؟</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b></div><div style="text-align: right;"><b>سوچو ضرور </b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b></div><div style="text-align: right;"><b>کربلہ میں شہادتیں اس لئے نہیں دی گئی تھیں کہ کربلا کہ نام پر راجہ ناصر جیسے مفسد تمہیں بے وقوف بنائیں</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>مزاق کو سمجھو</b><br />
<b><br />
</b></div><div style="text-align: right;"><b>المیہ گزر رہا ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>اسے روکو ورنہ یاد رکھو کہ یہ سیاسی ملا ایران جہاز سے جاتے ہیں تم کوئٹہ والے راستے سے</b></div></div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com8tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-26825482659593003812012-06-21T05:56:00.001-07:002012-06-21T05:58:30.517-07:00اسے کہتے ہیں زور کا جھٹکا۔ راجہ رینٹل پاور اشرف نئے وزیر اعظم پاکستان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><div style="text-align: center;"><a href="http://www.pkreaders.com/wp-content/uploads/2012/04/raja-parvez-ashraf-miniter-IT-and-Telecom.jpg" imageanchor="1"><img border="0" src="http://www.pkreaders.com/wp-content/uploads/2012/04/raja-parvez-ashraf-miniter-IT-and-Telecom.jpg" /></a> </div><div style="text-align: right;">ایک اشتہار آتا تھا جس میں ماڈل کہا کرتی تھی اولیویا شکریہ ، آج وہ اشتہار بہت یاد آ رہا ہے کیونکہ سمجھ نہیں آتا اپنے پیارے</div><div style="text-align: right;"> صدر صاحب کو کس منہ سے شکریہ کہیں تو سوچا اس ہی ماڈل کا منہ مانگ لیتے ہیں اور اس منہ سے شکریہ کہ دیتے ہیں ک جناب صدر نے قوم کی نبض پر ہاتھ رک کر صحیح طبیب تجویز کیا ہے، محترم جناب راجہ رینٹل پاور اشرف جو الیکشن میں راجہ پرویز اشرف کے نام سے حصہ لیتے ہیں۔<br />
راجہ صاحب کی راج دہانی میں یوں تو سب کچھ ہے بس وہ نہیں جس کی اس قوم کو ضرورت ہے۔ راجہ صاحب کی وجہ شہرت یوں تو بہت ساری ہیں لیکن جو وجہ قوم کی یاداشت میں محفوظ ہے اس کا تعلق قومی بیماری ےیعنی لوڈشیڈنگ سے ہے ۔راجہ صاحب اپنے دور وزارت میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے ھمیشا وعدے کرتے رہے لیکن عمل اس مقولے پر کرتے رہے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ ہاں بجلی میں اضافے کے لئے انکی عملی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں جو انہوں نے لا تعداد رینٹل پاور کے منصوبے سائن کرنے کی صورت میں کی تھی لیکن بھلا ہو عدلیہ کا ہر معاہدے پر یک جنبش قلم خط تنسیخ پھیر دی اب نجانےاس فیصلے کے پیچھے پی پی سے مخاصمت تھی یا راجہ صاحب کی نا اہلی ہم تو یہ جانتے ہیں کہ راجہ صاحب بجلی نا لا سکے اور نا لا سکیں گے کیونکہ عدلیا وہی اور راجہ صاحب بھی وہی۔ صدر صاحب ایک اور سیاسی شھہد وزیر اعظم کی راہ تک رہے ہیں تاکہ اگلے الیکشن میں پی پی کے پاس رونے کو کچھ تو ہو۔<br />
<br />
رہی قوم تو وہ راجہ رینٹل پاور المشہور راجہ اندھیر اشرف کو بھی جھیل لے گی کیونکہ اسے جھیلنے کی عادت ہی</div></div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-79533524882976414632012-06-20T02:35:00.000-07:002012-06-20T02:35:27.597-07:00بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><br />
<h4 style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em; text-align: right;"><img height="252" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizXXHSp7fGIQf_4nIFBn-I6JIAyK8AvSWw0DKkPXn_i6HWibWwsMSHZeLz_atUMg-wNop91L-oe-D7XN0xioDEWqP-pELL9FZSbX-YPqG1axAJHYeyohqtra6ONBo3Za37Z9Y1e3eiwRNv/s320/supremecourt.jpg" width="320" /> </h4><br />
<h4 style="text-align: right;">بچپن گزرنے کے بعد جب عہد شباب میں داخل ہوئے اور چلمنوں اور پردوں کی آڑ میں چھپی مہ جبینوں میں کچھ دلچسپی محسوس ہوئی تو ساتھ رہنے والے دوستوں سے پتا چلا کہ مہ جبینوں تک حال دل پہنچانے کا آزمودہ زریعہ خط و کتابت ہے سو صدر کراچی سے ایک سو ایک زخمی اشعار اٹھائے اور لکھنے لکھانے کے سلسلے کو چالو کرنے کی کوشش شروع کردی۔ آپ یقیننا حیرت زدہ ہوں گے یہ کیا بے وقت کا راگ الاپ رہا ہوں لیکن کیا کریں اس وقت موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے نہ چینی مصنوعات کی اتنی ریل پیل تھی۔ خیر بتانا یہ مقصود تھا کہ خط لکھنے کی اہمیت و افادیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی خط لکھنے کے لئے اور اس کو پہنچانے کے لئے بچپن میں کوشش کی ہو وہ بھلا خط کی اہمیت کو کیا جانیں جنہیں پچپن میں عدالتی حکم موصول ہو کہ خط لکھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو جب عدالت نے حکم دیا تو وہ بیچارے یقیننا شش و پنج کا شکار ہو گئے ہونگے کہ خط کیسے لکھا جائے، قیاس کہتا ہے کہ شاید انھوں نے مدد کے لئے لاکھہ دکھوں کی ایک دوا رحمان ملک کو رابطہ کیا ہو جنہوں نے ٹیکنالوجی کی اہمیت اور شرپسندوں کی جانب سے اس کے استعمال پر بھرپور لیکچر دیتے ہوئے بتایا ہو کہ اس دور میں خط لکھنا زیب نہیں دیتا بیرون ملک عناصر ہمیں کتنا گیا گزرا سمجھیں گے توبلآخر گیلانی صاحب نے خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا اور عدالت بیچاری کیا کرتی وہ ٹھہری پرانے خیالات کی حامل اس کا اصرار تو صرف خط ہی لکھنے پر تھا مجبور ہو کہ دونوں کو ہی معطل کر دیا۔ لیکن اگر عدالت چاہتی تو وہ متبادل زرائع جیسے فون کال یا ایس ایم ایس کی اجازت دے کر دو وزارتیں بچا سکتی تھی۔ اب اگلا وزیر اعظم بھی اگر خط نہ لکھےتو وہ بھی معطل ہوگا؟ ہمارا عدالت عالیہ و عائشہ و عمارہ کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ متبادل زرائع پر غور کرلے ورنہ وزراء تو آتے جاتے رہیں گے صدر صاحب نہیں جانے والے جو آپ کا اصلی ہدف ہیں۔ </h4></div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-4824414389704574720.post-79268419273262973882012-06-19T05:49:00.001-07:002012-06-19T05:49:11.978-07:00گیلانی کی نا اہلی اور میڈیا کی دکان<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="http://www.chowrangi.com/wp-content/uploads/2012/04/Prime-Minister-Gilani-convicted-for-contempt-of-court.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://www.chowrangi.com/wp-content/uploads/2012/04/Prime-Minister-Gilani-convicted-for-contempt-of-court.jpg" width="211" /></a></div>
<div style="text-align: right;">
گیلانی کی نا اہلی اور ارسلان افتخار کے کیس میں یوں تو کوئی رابطہ نہیں لیکن کیا کریں جیسے چیف صاحب لٹھ لے کے گیلانی حکومت کے پیچھے پڑے تھے اور گیلانی حکومت جیسے چیف صاحب کے احکامات کی دھجیاں اڑانے میں مصروف تھے اس جزباتی رومانس کا نتیجہ تو نکلنا تھا۔ ایک طرف وکلاء برادری کی طرف سے یہ شور کہ ارسلان افتخار کیس کے پیچھے حکومت ہے اور دوسری طرف اس کیس کی سماعت کے دوران ھی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ کوئی تعلق تو ہے باس۔</div>
<br />
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white;">بھلا ھو اس نورا کشتی کا کہ سنسنی پھیلانے والوں کو بے لاگ اور بے باگ جزبات کے لئے موضوع دے گئی اب حامد میر ہو کہ مبشر لقمان سب کا چورن بکے گا اور خوب بکے گا گیلانی کی سیاسی خودکشی میڈیا کو ایک نیا موضوع دے گئی اب ڈور ہو گی کہ کون پہلے گیلانی صاحب کا خصوصی انٹرویو کر کے ریٹنگ بڑھائے گا اور عوام کے سامنے نئے انکشافات لائے گا جس کی تصدیق ایک اور موضوع گفتگو ہوگی جو اگلے الیکشن تک ہوتی رہے گی۔</span></div>
<span style="background-color: white;"><div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white;">ہاں اگر اس بیچ قوم کے بنیادی حقوق کی خبر دب جائے تو حرج کوئی نہیں کیونکہ آزاد عدلیہ کی طرح آزاد میڈیا بھی جانتا ہے کہ اس قوم کا پانی بجلی اور گیس کے بغیر تو گزارا ہے مگر سیاست کے بغیر نہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white;"> میڈیا کی دکان پر تبصروں کے پکوان پکیں گے اور عوام خیالی فلاحی سلطنت کے خواب دیکھیں گے۔</span></div>
</span></div>Alymasoodhttp://www.blogger.com/profile/02108263213700005963noreply@blogger.com0