بدھ، 13 اگست، 2014

ایک فیس بک اسٹیٹس اپڈیٹ


  "پاکستان: فوج اور ملاوں کے درمیان"
اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایک دلچسپ لیکن تکلیف دہ سچائی سامنے آئی جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں موجود ہوگی بس زرا نظر کرنے کی دیر ہے،یہ کتاب پاکستان میں جاری ایک بھیاناک کھیل کو سمجھنے کے لئے اچھا حوالہ ہو سکتی ہے جس کے ذریعے پاکستان کو مفلوج بنایا جاتا رہا ھے اور اگر یہی حالات رہے تو شاید یہی عمل جاری بھی رہے۔  کتاب میں ایک واقعہ درج ہے، شاید سانحہ ہو لیکن ہمارے احساسات اسے واقعہ ہی سمجھ لیں تو بڑی بات ہے،
"بنگلہ دیش بننے سے پہلے صدر مملکت پاکستان جناب جنرل یحییٰ خان ناراض شیخ مجیب سے آخری دفعہ ملے تو مصنف لکھتا ہے،
" جب جنرل یحییٰ نے عوامی لیگ کے رہنماوں کا استقبال کیا تو انہوں نے ہاتھ میں وہسکی کا ایک بڑا گلاس تھام رکھا تھا- انہوں نے شیخ مجیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا –" اپنے لڑکوں سے کہہ دو انہیں فوج کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم سب کو چاہیئے کہ اسلام کی شان و شوکت اور پاکستان کی سالمیت کے لئے مل کر کام کریں"
دیکھنے اور سننے والے ششدر رہ گئے کہ ہاتھ میں وہسکی کا گلاس تھام کر خدمت اسلام کی ترغیب دی جا رہی تھی، حالانکہ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے"۔
میں چاہوں گا کہ اس واقعے کے دیگر پہلووں کے ساتھ اس پہلو پر بھی نظر کی جائے کہ پاکستان کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں نفاذ اسلام کی زیادہ تر بات ان ہی لوگوں نے کی جو کھلم کھلا شعائر اسلام کا مزاق اراتے رہے، اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ نطریاتی سرحدوں کے نام پر اسلام کو بلیک میلنگ ٹول بنایا جاتا رہا اور بنایا جا رہا ہے اور ہم میں سے بیشتر افراد اس کا شکار بھی ہوتے رہے، ہو رہے ہیں اور شاید ہوتے رہیں۔ اور اب ہم اس عمل کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ معاشرتی سے لے کر ذاتی زندگی تک ہر جگہ ہمیں جہاں جہاں موقع ملتا ہے ہم اس عمل کا خود بھی حصہ بن جاتے ہیں۔
وطن عزیز کے حال کو ہی دیکھ لیجئے جہان آج کل ایک کینیڈا پلٹ دیوانے نے ہا ہا کار مچا رکھی اور حیرت یہ ہے کہ اس کے ساتھ بھی عوام ہے، موصوف کا طریقہ واردات بھی کم و بیش جنرل یحییٰ والا ہے،  آج کل کچھ لوگ جو کھل کر "ریٹائر پادری" صاحب کی حمایت نہیں کر سکتے وہ بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کو بھی آزما لیتے ہیں غالبا صادق اور امین کی شرط پر ضد کرنے والے پادری صاحب کے نعرے متاثر کن ہوں لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے حافظے یہ بات بھول گئے کہ صادق اور امین کی شرائط پر پادری صاحب خود اس وقت پورے نہیں اتر پائے تھے جب یہ لاہور ہائی کورٹ سے اقدام قتل کا مقدمہ جھوٹا ہونے کے خوف سے فرار ہو گئے تھے، ہم لوگ کتنے بھولے ہوتے جا رہے ہیں۔
اور شاید یہی فلسفہ ہے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی منافقت گھول رہا ہے، یقین نہٰیں آتا تو ذرا ہم سب اپنے اپنے فیس بک جھانک لیتے ہیں ، مجھ سمیت بہت سے افراد کی والز پر ایسی اسٹیٹس اپڈیٹس نظر آئیں گے جو قرآنی آیات ، حدیث، قول امام یا پھر کسی بزرگ دین کے فرامین پر مشتمل ہونگے ، چاہے ہماری ذاتی زندگی میں دین ہو نا ہو جو بھی چیز ہمیں اپنے ذاتی خیال سے ہم آہنگ لگے گی، کہ یہ فرمان میرے موجودہ موقف کی حمایت کرتا ہے ہم لمحات میں اسے شئر کر دیں گے۔
پتا نہیں ہم کہاں جا رہے ہیں، پتا نہیں ہم کہاں جائیں گے۔
پاکستان میں واقعی انقلاب کی ضرورت ہے، سڑکوں پر نہیں فکر میں
کاش کہ یہ انقلاب آجائے اور ہم جاگ جایئں۔۔۔۔۔۔ کاش
علی مسعود
13 اگست 2014

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں