اتوار، 22 مئی، 2016

یہ جمود زندگی- یہ بقا کے مرحلے

ایک عرصے سے سوچ منجمد اور قلم ساکت ہے، غم روزگار نے کچھ ایسا فکری جمود طاری کردیا کہ جیسے فکر کے تمام سوتے خشک ہو گئے ہوں، میں خود پر غور کرتا ہوں تو جھنجھلا جاتا ہوں کہ یہ فکری بانجھ پن کیونکر وجود میں آیا۔ ذہن کے الجھاو کو دور کرنے کے واسطے آج قلم کی پوری طاقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس گھمبیر
صورت حل کا کوئی حل نکال سکوں ورنہ میرا معنوی وجود اختتام کے قریب نظر آرہا ہے۔

مادیت کے الجھاو نے روح کو سن کر دیا ہے، آج قلم کو زنگ آلود ہوئے مدت گزر گئی، قلم کو زندگی آلود کرنے کے 
واسطے آج اسے دوبارہ نئی و تازہ قوت دینی پڑے گی، گرد و پیش کو دوبارہ محسوس کرکے ان احساسات کو اتنی حدت فراہم کرنی پڑے گی کہ روح پر موجود تمام برف پگھل جائے ، اور زندگی کی یخ بستگتی میں کچھ تو حرارت پیدا ہو ورنہ اس جینے کے ہاتھوں ہم تو مر چلے۔ انسان کے احساسات کی کانات گر اک بار اس سے چھن جائے تو وہ ایسا جمود یافتہ بت بن جاتا ہے جسے گر و پیش کی کوئی خبر نہیں رہتی، کون ، کہاں، کس حال میں ہے اسے فرق نہیں پڑتا، وہ خود کہاں، کس حال میں ہے اسے تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا، وہ بے حس و حرکت ہوش و خرد سے انجان رہنے لگتا ہے، یہ کیفیت زندگی کی نہیں موت کی کیفیت ہوتی ہے، بقا نہیں فنا کی، ہستی کی نہیں عدم کی کیفیت ہوتی ہے اس واسطے زندہ انسان کو اسے قبولنے میں ہمیشہ تردد ہوتا ہے وہ کسی لمحے چونک پڑتا ہے، دھیرے دھیرے مشاہدہ شروع کر دیتا ہے۔ یہ مشاہدہ احساسات میں تحرک کا باعث بنتا ہے ، تحرک زندگی کی گرمی کو جنم دیتا ہے اور جمود کا بت توڑ دیتا ہے۔
آج ایسا لگتا ہے جیسے میرے جمود کی یخ بستہ چٹانیں بھی پگھل رہی ہیں، سرکش ہوائیں طوفان کی آمد کا پتا دے رہی ہیں، زندگی کا تعطل دور ہونے کو ہے، ہاں میں سوچ رہا ہوں، ہاں میرا قلم لکھ رہا ہے، ہاں زندگی برف کی سلوں سے گرم پانیوں کی جانب سرکنے لگی ہے، ہاں میں بے ربطگی سے جانب ربط چلنے کو ہوں۔

لکھنے والا جب معاشرے کی گھٹن آلود فضا میں جمود کا شکار ہوتا ہے تو دنیا اندھیر ہوجاتی ہے، ایسا اندھیرا کہ جس کے بھیانک گوشوں میں انسان سسکتا نظر آئے اور انسانیت بے حال، آج ایسا ہی کوئی پر آشوب دور ہے، جہاں شر و فتن اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ لکھاریوں کو معتوب، حق پرستوں کو مجزوب، اور فکری کاوشوں کو رقص ابلیس سے زیر کرنے پر تلا ہے۔

آج آدمیت منہ چھپائے شرم و حیا کا ماتم کر رہی ہے تو انسان خوب و بد، خیر و شر اور عدل و ظلم کے دوراہے پر ششدر
 کھڑا ہے کہ جائے تو جائے کہاں؟ مستقبل بے یقینی کے ایک دیو کی صورت اسے خوفزدہ و ہراساں کر رہا ہے، آج انسان کو ایسے حق شناس کی تلاش ہے جو زبان، قلم اور تلوار سے حق پھیلائے، صداقت کا بول بالا کردے اور باطل کی گھمبیر و سیاۃ منحوس گھٹایں دور کر کے آفتاب صدق کا جلوہ دکھا دے، کوی رقص ابلیس نہ رہے باقی ، انسان سکھ چین کا سانس لیتے، ارتقاء کے سفر کو جاری رکھتے منزل کمال کی جانب بڑھے، کہ وجود بشر کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ کمال کے اس نقطے کی جانب بڑھے جو اسکے خالق نے اسکے لئے معین کیا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ لباس عظمت وہ کیسے پہن سکتا ہے؟ کہاں سے لائے وہ وسائل جو اسکے لئے وہ لباس مہیا کریں؟ کب ایسے ممکن ہوگا؟ رقص ابلیس کب ختم ہوگا؟ آفتاب صدق کب طلوع ہوگا کہ آج وہ جو ظلم و استبداد کی آہنی سلاخوں کے پیچھے اس کے منتظر ہیں عالمی استکبار کے روز افزوں ظلم سے نجات پا جائیں؟
ہاں وہ صبح آرہی ہے، اسکی نسیم دلپزیر اپنی مترنم موسیقی سے نوید آمد سحرنو دے چکی ہے،وہ جو پندرہ شعبان المعظم کے دن جلوہ فگن ہوا ہولے ہولے، دھیرے دھیرے تمام آفاق کو اپنی آمد کی خبر سنا رہا ہے، قلم کا سکوت و جمود شاید اسی لئے ٹوٹا ہے کہ اب سکوت مرگ سے نجات کا وقت آچکا ہے اور حیات نو کی امید مل چکی ہے، آج بشریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسرور ہو کیونکہ یہ عید حیات نو ہے، ایک نئے عہد کا آغاز ہے تاریخ انسانی کے ہر دور میں بشریت نے اسکا انتظار کیا ہے، انتظار یوں تو بدتر از مرگ ہے، لیکن انسانیت کا یہ کمال انتظار ہے جو عبادت کا درجہ پاگیا۔ اسی لئے آج انتظار گاہ میں تھکی ماندہ انسانیت دیدہ دل فرش راہ کئے بیٹھی ہے۔

پندرہ شعبان المعظم انقلاب مہدی عجل اللہ فرجہ کے سلسلے میں ایک دعوت فکر ہے، یہ انسانی فکر و عمل سے جمود و
 تعطل کے خاتمے کا دن ہے جب عقل انسانی کمال کے نقطے پر پہنچ جائے گی اور انسانیت کمال حقیقی کوپا لے گی۔
سنو سرد راتوں کی تایکیوں میں چھپ چھپ رونے والوں
مصاب و آلام کی چکیوں میں پسنے والوں
ظلم و استبداد کا شکار ہونے والوں
دن کی روشنی میں استکبار کے منحوس سائے کے سیاہ اندھیروں میں سسکنے والوں

آج اپنی مظلومیت کے خاتمے کی نوید سن لو کہ آج کی نسیم صبح تمھارے درد کے مداوا کا پیغام لائی ہے۔ آفات کی سیاہ دبیز چادر اوڑھے یہ شب دیجور ختم ہونے کو ہے اور وہ صبح طلوع ہونے کو ہے جسکا تمہیں صدیوں سے انتظار تھا۔
آو سب مل کر اس صبح جانفزا کے استقبال کی تیاری کریں، کیونکہ اسکا استقبال در حقیقت صاحب لیلۃ القدر کو خوش آمدید کہنا ہے

آو خود سازی کے تمام دریچے کھول کر مشام جان و ایمان کو تازہ کریں تاکہ پندرہ شعبان المعظم کے اہل ثابت ہوں۔
آو اس نعمت عظمی پر خدائے بزرگ و برتر کے آگے سجدہ ریز ہو کر سجدہ شکر و حمد بجا لائیں

آو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔