بدھ، 20 جون، 2012

بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب



بچپن گزرنے کے بعد جب عہد شباب میں داخل ہوئے اور چلمنوں اور پردوں کی آڑ میں چھپی مہ جبینوں میں کچھ دلچسپی محسوس ہوئی تو ساتھ رہنے والے دوستوں سے پتا چلا کہ مہ جبینوں تک حال دل پہنچانے کا آزمودہ زریعہ خط و کتابت ہے سو صدر کراچی سے ایک سو ایک زخمی اشعار اٹھائے اور لکھنے لکھانے کے سلسلے کو چالو کرنے کی کوشش شروع کردی۔ آپ یقیننا حیرت زدہ ہوں گے یہ کیا بے وقت کا راگ الاپ رہا ہوں لیکن کیا کریں اس وقت موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے نہ چینی مصنوعات کی اتنی ریل پیل تھی۔ خیر بتانا یہ مقصود تھا کہ خط لکھنے کی اہمیت و افادیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی خط لکھنے کے لئے اور اس کو پہنچانے کے لئے بچپن میں کوشش کی ہو وہ بھلا خط کی اہمیت کو کیا جانیں جنہیں پچپن میں عدالتی حکم موصول ہو کہ خط لکھیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو جب عدالت نے حکم دیا تو وہ بیچارے یقیننا شش و پنج کا شکار ہو گئے ہونگے کہ خط کیسے لکھا جائے، قیاس کہتا ہے کہ شاید انھوں نے مدد کے لئے لاکھہ دکھوں کی ایک دوا رحمان ملک کو رابطہ کیا ہو جنہوں نے ٹیکنالوجی کی اہمیت اور شرپسندوں کی جانب سے اس کے استعمال پر بھرپور لیکچر دیتے ہوئے بتایا ہو کہ اس دور میں خط لکھنا زیب نہیں دیتا بیرون ملک عناصر ہمیں کتنا گیا گزرا سمجھیں گے توبلآخر گیلانی صاحب نے خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا اور عدالت بیچاری کیا کرتی وہ ٹھہری پرانے خیالات کی حامل اس کا اصرار تو صرف خط ہی لکھنے پر تھا مجبور ہو کہ دونوں کو ہی معطل کر دیا۔ لیکن اگر عدالت چاہتی تو وہ متبادل زرائع جیسے فون کال یا ایس ایم ایس کی اجازت دے کر دو وزارتیں بچا سکتی تھی۔ اب اگلا وزیر اعظم بھی اگر خط نہ لکھےتو وہ بھی معطل ہوگا؟ ہمارا عدالت عالیہ و عائشہ و عمارہ کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ متبادل زرائع پر غور کرلے ورنہ وزراء تو آتے جاتے رہیں گے صدر صاحب نہیں جانے والے جو آپ کا اصلی ہدف ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں