اتوار، 21 اکتوبر، 2018

ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو کھائے جا رہا ہے۔


اگر آپ نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم

 Venom

دیکھی ہے تو اس میں جو سنگم دکھایا گیا ہے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق کو انسانوں کے ساتھ ملانے کا تجربہ ہے دونوں جانداروں کے سنگم لیبارٹری میں وقوع پزیر ہو جاتے ہیں تو سائنس دانوں کو پتہ لگتا ہے کہ سیارے سے آئ ہوئ مخلوق اندر ہی اندر اپنے سبجیکٹ کو کھا رہی ہے۔ جگر، دل، گردے تمام اعضاء آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دیکھنے والوں کے لئے یہ سائنس فکشن لگتی ہے لیکن, چلیں نظریہ تبدیل کر کے دیکھتے ہیں۔ ہم انسانوں کے ساتھ ایک ہمزاد بھی جڑا ہوتا ہے جو ایسے ہی اندر ہی اندر ہمیں کھاتا رہتا ہے۔

پراسیس انٹرنل ہوتا ہے لیکن اس انٹرنل پراسیس کی شروعات عموماً کسی ایکسٹرنل سورس یا بیرونی طاقت کی ہلہ شیری کی محتاج ہوتی ہے۔

بیرون طاقتیں لاکھوں سینکڑوں، ہزاروں، چند ایک عوامل یا عامل پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن اتنی پر اثر ہوتی ہے کہ ہمارے اندر وینم ہمارے وجود میں رچ جاتا ہے

آہستہ آہستہ دھیرے دھیرے وہ ہمارے جسم کے مختلف اعضاء کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔
عموماً یہ عمل انتہائ سست روی کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور بتدریج رفتار پکڑنا شروع کر دیتا ہے۔

غور کریں امراض قلب, جگر، گردے، پھیپھڑے، بلڈ پریشر، ہائپر ٹینشن یہ سب کیا ہیں؟یہ سب وینم کی کارفرمائ ہے جناب۔

بعض صورتوں میں جو خصوصی صورتحال کہلاتی ہے۔

Venom

کی رفتار ابتدا سے ہی تیز ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ، اس وینم سے لڑنے کا کوئ توڑ موجود ہے؟
سوال یہ ہے کہ، کوئ ایسا بٹن بھی موجود ہے جو بیرونی طاقت کو اندرونی طاقت پر حاوی نہ آنے دے؟

سوال کے جواب کو کھوجا تو تصوّف کی بلندیوں سے طب کی پستیوں تک حل بہت پیش کئے جاتے ہیں
انسانی طبیعت کی موافقت کس حد تک ضروری ہوتی ہے اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔

شیطنیت کے پیروکاروں کو ورد پر لگانے سے شیطنیت دور نہیں ہوتی۔ 

ڈرگ ایڈکٹ کو مزید ڈرگز دینے سے فرق نہیں پڑتا۔

دنیا نے ریکی سے لے کر ہپنوسس تک،نیورولنگوسٹک پروگرامنگ سے لے کر ڈی این اے کی ہیلنگ تک نجانے کون کون سے فلسفے متعارف کروائے ہیں لیکن وینم دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ہمارے اندر کا آدم ہمارے اندر کے آدمی کو کھائے جا رہا ہے۔
 

اندرونی قوتوں کو استعمال کرنے پر کام کیا جاتا ہے لیکن بیرونی طاقتوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی۔ اگر آپ کسی پارک میں ہیں تو زرا ٹریک پر واک  کرتے لوگوں کے چہروں ہر نظر تو دوڑائیں، اگر آپ کسی بازار میں ہیں تو زرا مجمعے پر نظر دوڑائیں اور اگر آپ کہیں نہیں ہیں تو آئنے کے روبرو ہی ہو جائیں۔ چہروں پر حیرت، اضطراب، سراسیمگی ، جھنجھلاہٹ, غصہ، ہر جگہ دیکھنے کو ملے گا وجہ وہی۔ وینم کو کنٹرول کرنے کے لئے اندرونی طاقتوں کو استعمال کرنے کے ہزارگن ایجاد کر لئے ہیں۔

مگر بیرونی طاقتوں کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔

نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اندرونی طاقت سے بیرونی طاقتوں کو شکست دی جا سکتی ہے، مگر میاں! وہ زمانے لد  جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ سرمایا دارانہ جال میں جکڑے نظام میں اگر کسی فرد کا اندرونی حقیقی اضطراب جانچنا ہے تو بھیڑ میں بچھڑے بچے کا تصور کر لیں، تمام کیفیات جو اس وقت اس بچے ہر طاری ہوتی ہیں ان تمام کیفیات سے خود کو آشنا پائیں گے۔

وینم کو جکڑنے کے لئے وینم کو پابند کرنے کے لئے سائنسی ایجادات نہیں بلکہ  معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے ورنہ یہ وینم کب ہماری شخصیت پر حاوی ہو کر وہ خوفناک روپ دھارے گا جس سے خود کو بھی خوف آئے کوئ نہیں کہہ سکتا۔

شاید میں اول بک رہا ہوں یا فول بک رہا ہوں، اوٹ پٹانگ لکھ رہا ہوں لیکن کیا کروں دوستوں یہ میں نہیں لکھ رہا میرے اندر کا وینم بار بار آکر اس تحریر کا رخ بدلنے پر مجبور کر رہا ہے۔

میں بھی وینم کا شکار ہوں۔ مجھے بیرونی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے قصے کہانیوں کی نہں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں