اتوار، 17 اپریل، 2022

میں اور میرا تؑصب

میں اعلانیہ طور پر ایک تعصبی ہوں اور مجھے اپنے تعصب پر کوئ شرمندگی نہیں ہے۔ میں نے اپنی زاتی زندگی تک جو چیز بھی دیکھی اس کو تعصب کی عینک لگا کر دیکھا۔ سیدھی سی بات ہے تعصبی ہوں تو تعصب کی عینک ہی لگا کر دیکھوں گا۔ میں نہیں جانتا میں نے یہ تعصب کی عینک کب پہنی لیکن میں یہ جنتا ہوں کہ میں نے پہنی۔ تعصبی ہونے کا ایک نقصان ہے کہ مجھ جیسا تعصبی سیدھی سادھی بات کو بھی تعصب کے پیمانے میں تولتا ہے۔ مجھے اس اقرار میں بھی کوئ شرمندگی نہیں ہے کہ اوائل جواںی میں، میں نے گورمنٹ کامرس کالج فیشن ایبل اور برگروں کے تعلیمی ادارے میں چھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمعیت کا یونٹ کھولا۔ غالباً اس دور میں بھی میں تعصب کی عینک لگائے بیٹھا تھا۔ اس دور میں اندرون کراچی اور بیرون کراچی منعقد ہونے والے مباحثوں میں بولنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تعصب ہی تو تھا، جو اسامہ بن رضی جیسے محترم استاد کے زیر سایہ رہنے والا ایک کٹر جماعتی کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل عام ہر مباحثوں میں اپنی آواز اٹھاتا رہا۔
بحیثیت جماعتی میرا کام تو یہ بنتا تھا کہ میں ایم کیو ایم کے کارکنان کے قتل عام پر یا تو چپ رہتا یا جیسے آج لوگ سراہتے ہیں ویسے ہی اس اقدام کو سراہتا۔
لیکن پھر وہ کیا چیز تھی جس نے اس جماعتی کو ایم کیو ایم کے حق میں بولنے پر مجبور کیا، جبکہ وہ جماعتی ایک ذمہ دار بھی تھا۔
غالباً اس کے پیچھے موجود تعصب کارفرما تھا۔
میں نے کراچی آپریشن کو مہاجر نسل کشی مانا تھا یہ بھی تعصب تھا اور یہ تعصب اسوقت بھی دکھا جب فقط اردو بولنے کے جرم میں غیر مقامی رینجرز چیک پوسٹ کا تین گھنٹے تک نفسیاتی اذیتکا نشانہ بنا۔
اگر میں تعصبی نہ ہوتا تو میں یہ سوچتا کہ یہ اہلکار میری حفاظت کے لئے اسقدر چوکنے ہیں کہ مجھے مشکوک سمجھ کر میرے اہلخانہ اور میرے شہریوں کی حفاظت کی خاطر تین گھنٹے تک ہوچھ گچھ کرتے رہے لیکن میں ایسا سوچ نہیں سکا کیونکہ میں بہرحال ایک تعصبی ہوں۔ میں نے ہڑھا کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میرے قبیلے پر ملک دشمنی کے الزامات دھر دئے، میں نے اس وقت بھی ان پر یقین نہیں کیا کیوںکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں کہا گیا کہ جناح پور کے نقشے برآمد کر لئے گئے، کہا گیا کہ ملک دشمن لٹریچر برامد کر لیا گیا، میں نے اخباروں میں پڑھا، یقین کرنے کو دل نہیں کیا، اصولاً تو یقین کر لینا چاہئے تھا لیکن نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے جن پولیس مقابلوں کی تصاویر سامنے آئیں ان میں ہلاک ہونے والے افراد کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں۔
بتاؤ بھلا کوئ زیر حراست ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے طوق پہنے کیسے پولیس سے مقابلہ کر سکتا کے۔
قانون نافز کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں تھا اس لئے نقشوں اور لٹریچر کی برآمدگی مشکوک ٹہری۔
یا ممکن ہے کہ میرے تعصب نے ان کو مشکوک بنا دیا کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا، تعلیمی زندگی ختم ہوئ اور غم روزگار کا ناگ پھن اٹھائے کھڑا ہو گیا، غلطی سے نوکری بھی ملی ایک صحافتی ادارے میں، یہاں ہڑھنے پڑھانے کے مواقع اور کھل کر سامنے آئے۔
مشاہدہ تھوڑا سا اور قوی ہوا،
پڑھا کہ جناب!
مملکت پاکستاں کی تاریخ بڑے بڑے پردوں کے پیچھے چھپی ہے، یعنی اس ریاست میں ظالم طبقہ ہے جس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وسائل دوسروں کے ہوں قبضہ صرف ان کا۔
بنگالی بھائیوں کو دیکھیں جن کو آج ریاست میں غدارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیا وجہ تھی 16 دسمبر 1971 کا سانحہ پیش آیا، غالباً وہ کماتے زیادہ تھے اور اپنی کمائ پر اپنا حق بھی مانگتے تھے تو غدار تو ٹہرنے ہی تھے۔
میرے لئے وہ غدار نہیں، انہوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی بلکل اسی طرح جیسے قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی اور وہاں وہ جیت گئے۔ ہاں آپ کے لئے وہ غدار ہیں کیونکہ آپ ہیں محب وطن پاکستانی اور میں بہرحال ایک تعصبی، میں نے بلوچوں کی جدوجہد کو دیکھا تو میں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا معدنیات سے بھرپور اس زمین پر جنگ ہے کس کی اور کس لئے، مجھے پیچھے پھر وہی ظالم طبقہ دکھا جو وسائل پر قبضوں کی جنگ لڑ رہا ہے تو مجھے بلوچ بھائیوں سے ہمدردی محسوس ہوئ، آپ کے لئے وہ غدار ہونگے میرے لئے نہیں۔
کیونکہ بہرحال میں ایک تعصبی ہوں، پھر وہ وقت آیا جب جناح پور کے الزام لگانے والے خود ٹیلی ویژن اسکرین پر آئے اور انہوں نے آکر قبول کیا کہ ان الزامات میں کوئ صداقت نہیں تھی۔
میرے تعصبی زہن میں سوال ابھرا، جنہوں نے پندرہ سال سے زائد میرے قبیلے کی حب الوطنی پر سوال اٹھا رکھے تھے کیا ان کے خلاف کوئ کاروائ نہیں ہونی چاہئے لیکن سوال سوال ہی رہا،کیو کہ بہرحال ایک تعصبی زہن کی پیداوار تھا آج بھی ہماری حب الوطنی پر ہر ایرا غیرا نتھو خیرا سوال پہ سوال اٹھا رہا ہے ریاست میں ریاست کے محب وطن ہم سےسوال کرتے ہیں تم مہاجر کیسے، واپس کیوں نہیں چلے جاتے، ہم گندم اگا کر تم پر احسان کرتے ہیں دو ڈنڈے پڑتے ہی تمھارے لوگ تم سے الگ ہو جاتے ہیں۔
تمھارا لیڈرباہر کیوں بیٹھا ہے؟ تم لوگ پاکستان کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
یہ باتیں مشاہدے پر نہیں گفتگو پر مبنی ہیں جو مجھ سے پنجاب میں رہنے والے انتہائ پڑھے لکھے نوجوانوں نے کیں۔
وہ مضحکہ اڑاتے ہوئے بھی محب الوطن تھے وہ میری نسلوں پر بات کرتے بھی محب الوطن تھے۔
میں سہتے ہوئے بھی متعصب تھا۔
ارے بھائ! جواب تو سن لو سوال اٹھانا آسان ہے اور بغیرپڑھے سوال اٹھانا تو انتہائ آسان ہے۔
تم نے مجھے سے سوال کیا کہ میں مہاجر کیسے؟ اسکا جواب آئینی حوالوں بارہا دے چکا ہوں۔ پنجاب تو برصغیر کی تقسیم کے ساتھ تقسیم ہو گیا تھا۔
اگر میں تم سے یہ کیوں کہ تم خود کوأدھا پنجابی کیوں نہیں کہتے؟
اردو زبان، رسم و رواج اور ثقافت کے ملاپ کا نام ۔
فرما نے لگے کہ بھئ پنجابی بہرحال ایک قوم ہے جو کہ صوبہ پنجاب میں رہتی ہے، آپ سندھ میں رہتے ہو تو آپ سندھی کہلاو۔
میں ٹہرا تعصبی میں نے سوال کر دیا کہ کراچی میں رہنے تمام پنجابی سندھی کہلواتے ہیں خودکو؟
جواب ملا کہ چونکہ پیچھے سے ان کا تعلق پنجاب سے ہے اس لئے وہ پنجابی کہلائیں گے۔
میرے تعصب نے ایک چٹکلا اور دیا کہ پیچھے سے تو پنجاب بھی سندھ کا حصہ تھا تو اب آپ بتائیے کہ لفظ پنجابی کیوں؟ کہنے لگے کہ کچھ اور نہیں یہ آپ کا تعصب ہے جو آپ سے یہ باتیں کروا رہا ہے رہی بات گندم اگانے کی تو بھیا گندم اگانا بہرحال آپ کی محنت ہے لیکن آپکےپاس گندم بیچنے کے لئے مارکیٹ موجود ہے تو آپ کے گندم اگا رہے ہیں نا۔
کتنا ہی عجب ہو کہ اگر ہم آپکی اگائ ہوئ گندم خریدنے سے انکاری ہو جائیں اور اپنی ضرورت کے لئے گندم باہرسے برآمد کرنے لگیں پھر آپ اس گندم میں دفن ہونا پسند کریں گے یا افغانستان بیچنا پسند کریں گے؟
میرے ان جملوں نے غالباً میرے اس تعصب کی قلعی کھول دی۔
اور محفل درہم برہم ہو گئ۔
میں ان پنجابی نوجوانوں کو رخصت ہوتے دیکھتا رہا اور میری سوچ مجھ سے ایک ہی سوال کرتی رہی، کیوں؟ آخر کیوں تم اتنے تعصبی ہو؟ یہ عصبیت تمھارے اندر کس نے بھری ہے؟ تمھیں اس ریاست نے کیا نہیں دیا؟
میں نے اپنی سوچ میں غلطاں نو دسمبر کو عزیزاباد کارخ کر گیا اور عزیزاباد سے ہوتا ہوا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ انسانی حقوق کےچیمپٕن، انسانی حقوق کے علمبردار، انسانی حقوق کے مشعل لے کر دوڑ تو رہے ہیں لیکن ان کے روٹ میں عزیزآباد نہیں آتا تو میں نے اپنی سوچ سے مخاطب ہو کر کہا ابے او ایم سی! بی سی، سی سی اس تمام گفتگو کے بعد بھی اگر میرا وجود سلامت ہے تو اس کی سلامتی ضامن میرا یہی تعصب ہے۔ اب تو کوئ بھی رشتہ پیش کر مجھے قبول نہیں ہے کیونکہ میں ایک تعصبی ہوں۔ اگر تعصبی نہیں ہوتا تو مرچکا ہوتا۔
x

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں